Posts

ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

ارطغرل ڈرامہ اور علمائے ہند کا فتویٰ

                                                                                                                                                          ان دنوں ترکی کے مشہور زمانہ ڈرامہ ارطغرل پر مباحثوں کا سلسلہ جاری ھے،مختلف علماء کے فتاوی سامنے آرہے ہیں ،اور ہر پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ھے،دیوبند کے حلقوں سے بھی علماء کی آراء سامنے آرہی ہیں ،جنہوں نے اس کو شرعی نقطہ نظر سے نا جائز قرار دیا ھے،ان کی دلیل یہ ھے کہ،اس میں ویڈیو گرافی اور تصویر کشی ھے،موسیقی ھے،غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط اور پیارو محبت کے مناظر ہیں، جن کی اجازت شریعت میں نہیں ھے،اس میں شک نہیں کہ شرعی لحاظ سے یہ امور ناجائز ہیں ،اگر چہ ویڈیو گرافی کے ناجائز ہونے سے راقم کو اتفاق نہیں ،ہندوستان کے اکثر صاحب نظر علماء کی رائے یہ ھے کہ دعوتی اور تعلیمی مقاصد کیلئے ویڈیو گرافی کرنا اور اس طرح کے پروگرام بنانا،ان کو نشر کرنا اور دیکھنا سب جائز ھے،ہندوستان کے ممتاز فقہی ادارہ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا نے 2011 میں اپنے سمینار منعقدہ رامپور میں اس بابت تفصیلی تجویز منظور کی اور مؤقر علماء اور فقہاء نے اس سے اتفاق

What is needed for human betterment

 انسانی بہتری کے لئے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ کوئی قانونی ڈھانچہ یا مادی سازوسامان نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، جو آدمی کے اندر یہ جذبہ ابھارے کہ وہ اپنی اندرونی تحریک سے صحیح کام کرنے پر مجبور ہو اور غلط سمت میں جانے سے بچے، یہ کام صرف مذہب کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چند سو برس پہلے بڑے جوش سے دعوی کیا گیا تھا کہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں، مذہب حرام و حلال کے کچھ اصول دیتا ہے وہ ہم اپنے قانون ساز ادارے کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں، مذہب دوسری دنیا کی سزا سے ڈراتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو اس کے لیے ہمارا عدالتی نظام اور ہماری جیلیں کافی ہیں، مذہب یہ ترغیب دلاتا ہے کے ہمارے حکموں کو مانو گے تو تمہاری اگلی زندگی خوشگوار ہوگی، اس کے لئے بھی ہم کو موت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، اپنی مادی ترقیوں کے ذریعے ہم اسی دنیا کی زندگی کو جنت بنا سکتے ہیں، مگر یہ تمام امیدیں واقعات کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہیں، اور اب انسان دوبارہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، لمبی مدت تک ٹھوکریں کھانے کے ب

عاشوراء كے موقع پر اہل وعیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا تحقیقی جائزہ

 *عاشوراء کے موقع پر اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا ایک علمی و تحقیقی جائزہ*   ١٠/ محرم الحرام کے موقع پر بال بچوں پر دل کھول کر خرچ کرنے اور دسترخوان وسیع کرنے والی ساری روایتیں حد درجہ ضعیف اور کمزوور ہیں ، علت اور ضعف سے خالی کوئی ایک روایت بھی نہیں ، ہم ایک ایک روایت پر سب سے آخر میں تفصیلا گفتگو کریں گے ، ابھی سردست کچھ دوسری ایسی باتیں پیش کرنی ہیں جو اس حدیث کو ناقابل اعتبار ثابت کرتی ہیں ،جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ یہ سب روایتیں نہایت  درجہ ضعیف  بلکہ موضوع ہیں ، جن کا اعتبار نہیں کیاجا سکتا ، ماہرین کا ان کی بابت یہ خیال   ہے کہ شیعوں کی ضد میں کچھ ناصبیوں نے یہ روایتیں گڑھ لی ہیں ، چونکہ شیعہ ١٠ / محرم الحرام کو غم کا دن مانتے ہیں ، کھانے پینے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں ، اس لیے ان کی ضد میں ناصبیوں نے خوب کھانے پینے اور اہل وعیال پر خرچ کرنے کی روایات گڑھ لیں ، اور ایک جشن اور تہوار کی شکل دے دی ، ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کہیں بھی زیادہ کھانے پینے  اور اہل وعیال پر دہانے کھولنے کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے ، بلکہ اس کے بر عکس اقرباء پروری ، یتیموں او

قانون کی ناکامی اور مذہب کی جیت

  پچھلے سماج میں مذہب جو کام کر رہا تھا  وہ یہ تھا کہ صدیوں کے دوران میں مختلف بزرگوں کی تعلیم و تلقین کی وجہ سے کچھ خاص تصورات لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گئے تھے ، اور ان کے خلاف سوچنا یا عمل کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا،  مذہب کی منسوخی کے بعد جب یہ گرفت ڈھیلی ہو گئی تو اس کی جگہ لینے کے لیے اصلاحی قسم کے قوانین وجود میں آئے،  دوسرے لفظوں میں خدا کی اطاعت گزاری کی جگہ قانون کی حکمرانی نے لے لی،قانون اس متعین ضابطے  کو کہتے ہیں  جس کو کسی سماج میں لازمی طور پر قابل تسلیم قرار دیا گیا ہو، اور جس کی خلاف ورزی پر آدمی کو سزا دی جا سکتی ہو ، اس قسم کے قوانین ہر ملک میں وسیع پیمانے پر بنائے گئے اور اس طرح گویا زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں ریاست کی طرف سے حکما یہ بتایا گیا کہ وہ صحیح ترین رویہ کیا ہے جسے آدمی کو اختیار کرنا  چاہیے ،مگر ان قوانین کا فائدہ صرف یہ ہوا کہ جو برائی پہلے سیدھے طریقے سے ہوتی تھی وہ ہیر پھیر کے ذریعہ ہونے لگی، قانون صرف برائی کی شکلوں کو بدلا ہے، اصل برائی کو روکنے میں وہ بالکل ناکام ثابت ہوا ہے۔  حکومت دیکھتی ہے کہ کاروباری لوگ چیزوں میں ملاوٹ کر رہے ہیں، ناجائز اسٹ

حسین ابن علی مجاہد خلافت،شھید خلافت

 *محرم کے مہینے کا وہ دن خلافت راشدہ کو پوری طرح سے  نیست و نابود کر دینے کا دن تھا؛ ایک طرف جہاں اُس دن عالم اسلام کا سب سے عظیم سانحہ پیش آیا کہ الله کے رسول کے نواسے اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کو تہہ تیغ کر ڈالا گیا وہیں دوسری طرف الله کے رسول کے ہاتھوں پروان چڑھے نظام سیاست کو بھی پارہ پارہ کر خاندانی جاگیرداری نظام کو مسلمانوں کے گلے کا طوق بنا دیا گیا؛ اللہ کی پناہ؛یہ دن ہمیں بار بار الله کے رسول کے ہاتھوں سینچی گئی، خلفاء راشدین کے ہاتھوں پھلنے، پھولنے اور کِھلنے والی پیاری خلافت راشدہ کی یاد دلاتا ہے، افسوس؛ اِسے ایسا روندا گیا کہ پھر کِھل نہ سکی*  حسین نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور اس کے حکم پر شہید کئے گئے، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے، تاہم حسین یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ اسے کافر سمجھتے تھے، اور نہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ اسے فاسق سمجھتے تھے۔ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ یزید کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے۔  یزید نے حسین کا حق غصب کیا تھا نہ حسین کے خاندان کا حق غصب کیا تھا، اس نے امت کا حق غصب کیا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک امت کو اپ

سید قطب شہید،سوانح حیات

 .            #سیدقطب_شہید🌏#وفات29اگست  🔖پیدائش : 9 اکتوبر 1906 ؛ موشا ، محافظہ اسیوط ،  خديويت مصر 🔖وفات : 25 اگست 1966 (عمر  59 سال) قاھرہ ، مصر 🔖نسل : مصری دور اکیسویں صدی  🔖مذھب : اسلام  🔖مکتب فکر : اھل سنت  🔖شعبۂ عمل : اسلام ، سیاست ، تفسیر قرآن (تفسیر قرآن) 🔖اھم نظریات : زمانہ جاہلیت ، عبودیت ، الہہ ، حاکمیت ، دین کی سہی تعریف  🔖کارہائے نماياں : تفسیر فی ظلال القرآن (In the Shade of Quran) ، معالم فی الطریق (Milestones) 🔖مؤثر : عبدالقاہر جرجانی ، ابن قیم جوزیہ ، حسن البنا ،  الیکسس کارل ، عباس العقاد ، سید ابو الاعلی مودودی #سیدقطب کا اصل نام سید ھے جب کہ قطب ان کا خاندانی نام ھے ۔ ان کے آباء و اجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رھنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وھاں سے ھجرت کر کے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ھو گئے تھے ۔ سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ھوئی ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم  قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد میں یہیں پروفیسر ھو گئے ۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ھوئے