ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

عاشوراء كے موقع پر اہل وعیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا تحقیقی جائزہ

 *عاشوراء کے موقع پر اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا ایک علمی و تحقیقی جائزہ*

 

١٠/ محرم الحرام کے موقع پر بال بچوں پر دل کھول کر خرچ کرنے اور دسترخوان وسیع کرنے والی ساری روایتیں حد درجہ ضعیف اور کمزوور ہیں ، علت اور ضعف سے خالی کوئی ایک روایت بھی نہیں ، ہم ایک ایک روایت پر سب سے آخر میں تفصیلا گفتگو کریں گے ، ابھی سردست کچھ دوسری ایسی باتیں پیش کرنی ہیں جو اس حدیث کو ناقابل اعتبار ثابت کرتی ہیں ،جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ یہ سب روایتیں نہایت  درجہ ضعیف  بلکہ موضوع ہیں ، جن کا اعتبار نہیں کیاجا سکتا ، ماہرین کا ان کی بابت یہ خیال   ہے کہ شیعوں کی ضد میں کچھ ناصبیوں نے یہ روایتیں گڑھ لی ہیں ، چونکہ شیعہ ١٠ / محرم الحرام کو غم کا دن مانتے ہیں ، کھانے پینے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں ، اس لیے ان کی ضد میں ناصبیوں نے خوب کھانے پینے اور اہل وعیال پر خرچ کرنے کی روایات گڑھ لیں ، اور ایک جشن اور تہوار کی شکل دے دی ، ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کہیں بھی زیادہ کھانے پینے  اور اہل وعیال پر دہانے کھولنے کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے ، بلکہ اس کے بر عکس اقرباء پروری ، یتیموں اور مسکینوں کی داد رسی اور یتیموں اور بیواؤوں کا خیال رکھنے اور انہیں نوازنے کی تاکید کی گئی ہے ، آپ خود بھی اس logic کی کمزوری پر غور کرسکتے ہیں کہ اگر نئے سال کی بنیاد پر خرچ کرنے کی ہمت افزائی ہوتی ، تو یکم محرم کو اس کی ہمت افزائی کی جاتی ، نہ کہ نو دن گذر جانے کے بعد دسویں روز عاشوراء کو ، آج بھی جو لوگ نئے سال کا جشن مناتے ہیں ، وہ  پہلی تاریخ کو مناتے ہیں ، نہ کہ دسویں تاریخ کو ، اس سے آپ اس من گھڑت قصہ کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں ، ایک اور طریقہ سے اس بات کی کمزوری کو چیک کر سکتے ہیں ، وہ یہ کہ شریعت اسلامیہ نے عاشوراء کے روزے کی فضیلت بیان کی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ اس کا اہتمام کیا ، صحابہ اس کا اہتمام کرتے رہے ، تو جس دن کے روزے کی ہمت افزائی کی گئی ہو ، اس دن اہل و عیال پر کشادگی کرنے ، دل کھول کر خرچ کرنے ، کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرنے اور دسترخوان وسیع کرنے کی بات کس قدر غیر منطقی اور بھونڈی ہے ، جن دنوں میں شریعت کی رو سے  اہتمام کے ساتھ کھانے پینے اور احباب کو کھلانے کا اہتمام کرنے کی گنجائش ہے (لیکن ہمت افزائی وہاں بھی نہیں ،بلکہ غریبوں ، بے کسوں اور مجبوروں کی خبر گیری ہی کی ہمت افزائی کی گئی ہے )، اس دن روزہ رکھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ، یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ، اب آپ دس محرم کے دن کھانے پینے اور دسترخوان وسیع کرنے اور اہل و عیال پر دل کھول کر خرچ کرنے والی بات کی حقیقت سے ضرور واقف ہوگئے ہوں گے ، اور بھی کچھ ایسی باتیں ہیں جو ہمیں ان روایات کی اسنادی کمزوریوں کے علی الرغم ان پر عمل کرنے کی راہ میں سخت مانع ہیں ، انہیں سطور ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :

اگر عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے کی فضیلت ہوتی ، تو اس کا اطلاق بغیر کسی تنگی اور رکاوٹ کے عاشوراء کے دن پر ہونا چاہئیے تھا ، نہ کہ صرف اس کی شب پر ، کیونکہ جب کوئی حکم کسی دن ، یا تاریخ کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ، تو اصلا اس کا اطلاق دن پر ہوتا ہے ، رات تو بس دن کے تابع ہوتی ہے ، جب کہ یہاں معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے ، کیونکہ روزہ کی سنیت اور فضیلت دن کے لیے رکاوٹ ہے ، لیکن جناب مفتی عمران اسماعیل صاحب  میمن حنفی گجراتی کھینچ تان کر عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے کی وکالت کرتے ہوئے درج ذیل باتیں لکھتے ہیں :

" اس روایت میں کہیں بھی دسترخوان کا ، یا کھانا کھلانے کا ذکر نہیں ہے ، بلکہ نفقہ ، یعنی مطلق خرچ کرنے کا ذکر ہے ، خرچ کرنے میں بیوی بچوں کو نقد پیسے دینا ، کھلانا پلانا ، کپڑے ، دوائی وغیرہ تمام ضروری چیزیں داخل ہیں ، اور افطار کے لیے جتنی بھی چیزیں خریدیں گے ، اس کا خرچہ تو دن ہی میں ہوگا ، نیز عاشوراء مغرب بعد ہی سے شروع ہوجاتا ہے ، لہذا رات کو ، یا سحری میں اچھا کھانا کھلایا جائے تو بھی روزے کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں رہا " ۔

مفتی صاحب کی مذکورہ باتوں میں کئی باتیں مضحکہ خیز حد تک غیر علمی ہوگئیں ہیں ، ایک تو ان کا یہ کہنا کہ روایت میں دسترخوان کا ، یا کھانا کھلانے کا ذکر نہیں ہے ، مضحکہ خیز ہے ، ایک مفتی کا علم عربیت کے اعتبار سے بہت پختہ ہونا چاہئیے ، ورنہ پھر اسی طرح کے مضحکہ خیز غیر علمی لطیفے وہ تخلیق کرتا پھرے گا ، توسیع علی العیال عربی کی ایسی جامع تعبیر ہے کہ خارج سے دسترخوان اور کھانا کھلانے کے لیے کچھ الفاظ ملحق کرنے کی ضرورت نہیں ، یہ سب معانی اس کے اندرون میں موجود ہیں ، کیا مفتی صاحب نے ان روایات کا مطلب شرحوں میں دیکھنے کی زحمت نہیں فرمائی ، آخر تو کوئی بات ہوگی جس کے سبب شارحین نے دسترخوان وسیع کرنے سے اسے تعبیر کیا ہے ، اور جناب نے بھی تو بالآخر دسترخوان تک بات کو پہنچاکر ہی چھوڑا ہے ، فرماتے ہیں : 

" بلکہ نفقہ ، یعنی مطلق خرچ کرنے کا ذکر ہے " .

         لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مفتی صاحب نفقہ کا مطلب صرف پیسہ دینا سمجھتے ہوں ، بلکہ نفقہ کے پورے مصداق سے بھی واقف ہیں ، وہ خود ہی پھر نفقہ کا مطلب بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :

" خرچ کرنے میں بیوی بچوں کو نقد پیسے دینا ، کھلانا پلانا ، کپڑے ، دوائی وغیرہ تمام ضروری چیزیں داخل ہیں " . میرا کہنا ہے جب مفتی صاحب اس لفظ کی وسعت معنی سے واقف ہیں تو پھر انہوں نے یہ بات کیوں لکھی کہ اس روایت میں دسترخوان اور کھانا کھلانے کا ذکر نہیں ہے ، جب کہ وہ خود نفقہ کی راہ سے اسی ڈگر پر آ پہنچے ہیں ، جہاں شارحین توسیع علی العیال کے واسطے سے پہلے سے پہنچے ہوئے ہیں  ، کیا عاشوراء کے دن روزے کے اہتمام کے باوجود نفقہ اپنی وسعت معنی کے ساتھ جلوہ افروز ہو سکتا ہے ؟ جب کہ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ عیال کے ضمن میں نفقہ کا مطلب صرف پیسہ تھما دینا نہیں ہوتا ، بلکہ ضرورت کی تیار شدہ چیزیں مہیا کرنا ہوتا ہے ، بیوی کا نفقہ شوہر پر فرض ہے ، اس کی ادائیگی بیوی کے ہاتھ میں صرف پیسہ تھما کر نہیں ہو سکتی ، بلکہ شریعت کی رو سے اصلا تیار شدہ کھانا مہیا کرانا ہے ، قانونی طور پر اصلا پکا پکایا کھانا مہیا کرنا شوہر کے ذمہ فرض ہے ، ابھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ اخلاقا ہے ، تو عیال پر نفقہ خالی پیسہ انڈیلنا نہیں ہوتا ، بلکہ ضرورت کی تیار شدہ چیز مہیا کرنا ہوتا ہے ، اس طرح بات دسترخوان اور کھانا کھلانے تک بھی پہنچ جاتی ہے ، اور یہ بات روزہ کے ساتھ پریشان کن ثابت ہو رہی ہے ، لہذا مفتی صاحب دامن چھوڑا کر رات کی تاریکی میں منہ چھپانے کی کوشش فرما رہے ہیں ، چنانچہ خود فرماتے ہیں :

" اور افطار کی جتنی چیزیں خریدیں گے اس کا خرچہ تو دن ہی میں ہوگا ، نیز عاشوراء مغرب بعد ہی سے شروع ہوجاتا ہے ، لہذا رات کو ، یا سحری میں اچھا کھانا کھلایا جائے تو بھی روزے کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہ رہا ".

اسے راہ فرار اختیار کرنا کہا جاتا ہے ، یعنی ہمارے مفتی صاحب بھی خوب اچھی طرح محسوس فرماتے ہیں کہ روزے کے ساتھ عاشوراء کے دن میں اہل و عیال پر دل کھول کر خرچ کرنے والی بات بنتی نہیں ہے ، اس لیے پھر انہوں نے رات کا سہارا لینا شروع کر دیا ۔                  عاشوراء اگر غروب افتاب سے ہی شروع ہوجاتا ہے تو مفتی صاحب یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ عاشوراء غروب آفتاب کے ساتھ ختم بھی ہو جاتا ہے ، لہذا جو اہتمام آپ روزہ افطار کرنے میں فرمائیں گے وہ عاشوراء کے نام الارٹ نہیں ہو سکے گا ، اب لے دے کر آپ کے پاس صرف عاشوراء کی رات رہ جاتی ہے ، لہذا رات میں آپ خوب اہتمام و انتظام کے ساتھ اہل و عیال پر خرچ کر سکتے ہیں ، پھر سحری میں خوب خوب بچوں پر خرچ کریں گے ، لیکن یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ سحری بہت اہتمام کا موقع نہیں ، کیونکہ سحری معمولی کھانے پینے کا نام ہے ، دوسرے یہ کہ سحری کے جشن میں سارے اہل و عیال شریک بھی نہیں ہو سکتے ، کیونکہ اس میں صبح صادق سے پہلے کی شرط ہے ، یہ رات کا جشن ہوگا ، جو بچوں کے لیے ممکن نہیں ہوگا ، اور اگر آپ یہ جشن منا بھی لیں ، تو جناب  یہ سارے اخراجات تو عاشوراء کی رات کے نام درج ہوں گے ، جب کہ روایتوں میں عاشوراء کے دن کا حوالہ ہے ، یہ کیسی مضحکہ خیز توجیہ ہے کہ جس کے دن نام یہ فضیلت وارد ہوئی ، وہ کسی رات کے نام نثار کی جارہی ہے ؟ عاشوراء کے دن تو آپ کسی طرح بھی اہل و عیال پر دل کھول کر خرچ نہیں کر پا رہے ہیں ، یہ صورت حال بتاتی ہے کہ یہ اللہ و رسول کا حکم نہیں ہے ، اللہ و رسول کے احکام میں تضاد نہیں ہوتا ، یہ کسی گنہگار شخص کی گڑھی ہوئی بات ہے ، یہ روشن دلیل ہے اس بات کے موضوع ہونے کی ، اور جہاں تک بات ہے اس کی کہ کچھ لوگوں نے عاشوراء کے دن وسعت سے خرچ کرنے کی برکت پورے سال محسوس کی اور اس کا سالہا سال تجربہ کیا ہے ، تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ بر صغیر کے مسلمان صدیوں سے عاشوراء کو ایک جشن اور تہوار کی طرح مناتے آرہے ہیں ، اور وہ ساری باتیں کرتے آرہے ہیں جو ان روایتوں میں مذکور ہیں، لیکن افسوس کہ ان سے زیادہ بدحال اور قابل ترس کہاں کا مسلمان ہوگا ؟ یہ تو ایسا تجربہ ہے جس سے مفتی صاحب ! خود ہمارا ملک اور بر صغیر کا پورا خطہ گزر رہا ہے ، دوسرے کے تجربے کو نقل کرنے کی یہاں کیا ضرورت تھی ؟ وہ بات جس کا تجربہ آدمی خود کر رہا ہو ، اس میں کسی دوسرے کے تجربے کو نقل کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ۔ 

*اب ذیل میں ان روایتوں کے اسنادی مقام کو ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ بھی فرمائیں :*

 ١- [عن جابر بن عبدالله:] من وسَّع على أهلِه يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ على أهلِه طُولَ سنتِه

البيهقي (ت ٤٥٨)، شعب الإيمان ٣‏/١٣٨٩  •  إسناده ضعيف  •  أخرجه البيهقي في «شعب الإيمان» (٣٧٩١)

 ٢- [عن أبي هريرة:] إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ افترض على بني إسرائيلَ صومَ يومِ السَّنةِ يومِ عاشوراءَ ، وهو اليومُ العاشرُ من المحرَّمِ ، فصوموه ووسِّعوا على أهاليكم فيه ، فإنَّه من وسَّع على أهلِه من مالِه يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليه سائرَ سنتِه ، فصوموه فإنَّه اليومُ الَّذي تاب اللهُ فيه على آدمَ ، وهو اليومُ الَّذي رفع اللهُ فيه إدريسَ مكانًا عليًّا ، وهو اليومُ الَّذي نجَّى فيه إبراهيمَ من النَّارِ ، وهو اليومُ الَّذي أخرج فيه نوحًا من السَّفينةِ ، وهو اليومُ الَّذي أنزل فيه التَّوراةَ على موسَى ، وفيه فدا اللهُ إسماعيلَ من

ابن الجوزي (ت ٥٩٧)، موضوعات ابن الجوزي ٢‏/٥٦٨  •  لا يشك عاقل في وضعه

 ٣- [عن عبدالله بن مسعود:] من وسَّع على أهلِهِ في عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليه سائرَ سَنتِهِ

ابن حبان (ت ٣٥٤)، المجروحين ٢‏/٤٤٦  •  [فيه] هيصم بن الشداخ يروي عن شعبة الأعمش الطامات في الروايات لا يجوز الاحتجاج به  •  أخرجه العقيلي في «الضعفاء الكبير» (٣/٢٥٢)، وابن حبان في «المجروحين» (٢/٤٤٦)، والطبراني (١٠/٩٤) (١٠٠٠٧) باختلاف يسير

 ٤- [عن عبدالله بن مسعود:] من وسَّع على أهلِه يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليه سائرَ سنتِه

ابن الجوزي (ت ٥٩٧)، موضوعات ابن الجوزي ٢‏/٥٧٢  •  موضوع  •  أخرجه العقيلي في «الضعفاء الكبير» (٣/٢٥٢)، وابن حبان في «المجروحين» (٢/٤٤٦) واللفظ له، والطبراني (١٠/٩٤) (١٠٠٠٧)

 ٥- من وسَّع على أهلهِ يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليه سائرَ سُنَّتهِ

ابن تيمية (ت ٧٢٨)، منهاج السنة ٨‏/١٤٩  •  كذب على النبي صلى الله عليه وسلم

 ٦- أنه من وسَّعَ على أَهلِهِ يومَ عاشوراءَ وسَّعَ اللَّهُ عليهِ سائرَ السَّنةِ

ابن تيمية (ت ٧٢٨)، مجموع الفتاوى ٢٥‏/٣٠٠  •  موضوع مكذوب على النبي صلى الله عليه وسلم

 ٧- من وسَّع على أهلِهِ يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليه سائرَ السَّنةِ

ابن رجب (ت ٧٩٥)، لطائف المعارف ١١٢  •  روي من وجوه متعددة لا يصح منها وقد روي عن عمر من قوله وفي إسناده مجهول لا يعرف

 ٨- [عن أبي سعيد الخدري:] من وسَّعَ على أهلِهِ في يومِ عاشوراءَ وسَّعَ اللَّهُ عليهِ سنتَهُ كلَّها

الهيثمي (ت ٨٠٧)، مجمع الزوائد ٣‏/١٩٢  •  فيه محمد بن إسماعيل الجعفري قال أبو حاتم‏‏ منكر الحديث‏‏

 ٩- [عن أبي سعيد الخدري:] من وسَّعَ على أهلِهِ يومَ عاشوراءَ وسَّع اللهُ عليهِ سنَتَهُ كلَّها

ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، الأمالي المطلقة ٢٨  •  [فيه] عبد الله بن سلمة الربعي ضعفه أبو زرعة و[فيه] محمد الجعفري ضعفه أبو حاتم والحديث له شواهد

 ١٠- [عن أبي سعيد الخدري:] إنَّهُ من وسَّعَ على أَهْلِهِ يومَ عاشوراءَ وسَّعَ اللَّهُ علَيهِ سائرَ سنتِهِ

الألباني (ت ١٤٢٠)، إصلاح المساجد ١٦٦  •  لا يصح

 ١١- [عن أبي هريرة:] مَن وَسَّعَ على أهْلِه وعيالِه يومَ عاشُوراءَ، أَوسَعَ اللهُ عليه سائِرَ سَنَتِه.

العقيلي (ت ٣٢٢)، الضعفاء الكبير ٤‏/٦٥  •  غير محفوظ

 ١٢- [عن عبدالله بن مسعود:] مَنْ وسَّعَ على أهلِهِ يومَ عاشُوراءَ

العقيلي (ت ٣٢٢)، لسان الميزان ٨‏/٣٦٦  •  غير محفوظ  •  أخرجه مطولاً العقيلي في «الضعفاء الكبير» (٣/٢٥٢)، وابن حبان في «المجروحين» (٢/٤٤٦) واللفظ له، والطبراني (١٠/٩٤) (١٠٠٠٧)

 ١٣- [عن أبي سعيد الخدري:] مَن وسَّع على أهلِه في يومِ عاشوراءَ أوسَع اللهُ عليه سَنتَه كلَّها

الطبراني (ت ٣٦٠)، المعجم الأوسط ٩‏/١٢٠  •  لا يروى هذا الحديث عن أبي سعيد الخدري إلا بهذا الإسناد تفرد به محمد بن إسماعيل الجعفري

 ١٤- [عن عبدالله بن مسعود:] مَنْ وسَّعَ على أهلِهِ يومَ عاشُوراءَ

ابن القيسراني (ت ٥٠٨)، تذكرة الحفاظ ٣٦٢  •  [فيه] هيصم بن الشداخ يروي عن الأعمش الطامات لا يجوز الاحتجاج به  •  أخرجه مطولاً العقيلي في «الضعفاء الكبير» (٣/٢٥٢)، وابن حبان في «المجروحين» (٢/٤٤٦) واللفظ له، والطبراني (١٠/٩٤) (١٠٠٠٧)

 ١٥- [عن عبدالله بن مسعود:] من وسَّعَ على أهلِه يومَ عاشوراءَ

الذهبي (ت ٧٤٨)، ميزان الاعتدال ٤‏/٣٢٦  •  [فيه] هيصم بن الشداخ قال ابن حبان : يروي الطامات ، لا يجوز أن يحتج به  •  أخرجه مطولاً العقيلي في «الضعفاء الكبير» (٣/٢٥٢)، وابن حبان في «المجروحين» (٢/٤٤٦) واللفظ له، والطبراني (١٠/٩٤) (١٠٠

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ