ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

What is needed for human betterment

 انسانی بہتری کے لئے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ کوئی قانونی ڈھانچہ یا مادی سازوسامان نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، جو آدمی کے اندر یہ جذبہ ابھارے کہ وہ اپنی اندرونی تحریک سے صحیح کام کرنے پر مجبور ہو اور غلط سمت میں جانے سے بچے، یہ کام صرف مذہب کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چند سو برس پہلے بڑے جوش سے دعوی کیا گیا تھا کہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں، مذہب حرام و حلال کے کچھ اصول دیتا ہے وہ ہم اپنے قانون ساز ادارے کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں، مذہب دوسری دنیا کی سزا سے ڈراتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو اس کے لیے ہمارا عدالتی نظام اور ہماری جیلیں کافی ہیں، مذہب یہ ترغیب دلاتا ہے کے ہمارے حکموں کو مانو گے تو تمہاری اگلی زندگی خوشگوار ہوگی، اس کے لئے بھی ہم کو موت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، اپنی مادی ترقیوں کے ذریعے ہم اسی دنیا کی زندگی کو جنت بنا سکتے ہیں، مگر یہ تمام امیدیں واقعات کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہیں، اور اب انسان دوبارہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، لمبی مدت تک ٹھوکریں کھانے کے بعد اب انسان کی سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ صرف کاغذی نقشے اور مادی وسائل کافی نہیں ہے، اس کے سوا ایک اور چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے، وہ ہے خود انسان کا اپنا جذبہ، اس کے اندر ایک ایسا ارادہ جو اصلاحات کی خارجی کوششوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے تیار ہو، دوسرے لفظوں میں ایک ایسا محرک جو اندر سے آدمی کو عمل پر اکسائے، جو آدمی کو ایک دوسرے کے حقوق پہچانے پر مجبور کرے۔ 


یہی اندرونی محرک تمام اصلاحات کی جان ہے، اگر یہ موجود نہ ہو تو ساری ترقیوں کے باوجود آپس میں اس قدر چھین جھپٹ ہوگی کی زندگی سکون سے محروم ہوجائے گی، اور بہترین قسم کے معاشی منصوبے صرف ٹھیکیداروں اور انجینئروں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا موقع ثابت ہوں گے، مگر تمام نظریات میں صرف مذہب کے لئے یہ ممکن ہے کہ آدمی کے اندر اس قسم کا اندرونی محرک پیدا کر سکے ،انسانی قانون بدعنوانی سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کسی عدالت میں پیشی کا حوالہ دے سکتا ہے، جس کے متعلق معلوم ہے کہ جھوٹے بیانات اور غلط شہادتوں کے ذریعے بہت آسانی سے اس کو گمراہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ مذہب قادر مطلق کی عدالت میں حاضر ہونے سے ڈراتا ہے، جس سے بچنا کسی حال میں ممکن نہیں ہے، اس لیے انسانی ساخت کا نظام کبھی بھی کوئی بہتر سوسائٹی تعمیر نہیں کر سکتا، یہ صرف مذہب ہی کے ذریعہ ممکن ہے، "لینن" نے مذہب کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمارے نزدیک آسمان پر جنت تعمیر کرنے سے زیادہ اہم کام زمین پر جنت تعمیر کرنا ہے" مگر تجربہ  نے یہ ثابت کر دیا کہ زمین پر وہی لوگ جنت تعمیر کر سکتے ہیں جو آسمان پر جنت تعمیر کرنے کا مقصد اپنے سامنے رکھتے ہوں،اور جن کے پیشے نظر آسمان پر جنت کی تعمیر نہ ہو وہ زمین و آسمان دونوں جگہ دوزخ تعمیر کریں گے، مذہب کے بارے میں یہ تصور محض ایک ذہنی اپج یا خوش عقیدگی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے، پچھلی صدی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کروڑوں انسان اسی امید میں نیکی کی راہ چلے ہیں،کہ انہیں اس کا بدلہ آنے والی زندگی میں ملے گا، اور بے شمار لوگ محض اس خوف سے بدی سے بچتے رہے ہیں کہ کہیں ان کی بد اعمالیاں  انہیں عذاب کے حوالے نہ کر دیں، مگر مادی دور میں اس قسم کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی آج اگر کوئی انسان بھلائی کی راہ پر چلتا ہوا نظر آتا ہے تو بھی دراصل پرانے مذہبی تصورات کا اثر ہے، ورنہ جہاں تک مادی تہذیب کا تعلق ہے وہ تو انسان کو خود غرض اور غیر ذمہ دار بنانے کے سوا اور کوئی صلاحیت نہیں رکھتی

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ