Posts

Showing posts from August, 2020

ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

ارطغرل ڈرامہ اور علمائے ہند کا فتویٰ

                                                                                                                                                          ان دنوں ترکی کے مشہور زمانہ ڈرامہ ارطغرل پر مباحثوں کا سلسلہ جاری ھے،مختلف علماء کے فتاوی سامنے آرہے ہیں ،اور ہر پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش کی جا رہی ھے،دیوبند کے حلقوں سے بھی علماء کی آراء سامنے آرہی ہیں ،جنہوں نے اس کو شرعی نقطہ نظر سے نا جائز قرار دیا ھے،ان کی دلیل یہ ھے کہ،اس میں ویڈیو گرافی اور تصویر کشی ھے،موسیقی ھے،غیر محرم عورتوں کے ساتھ اختلاط اور پیارو محبت کے مناظر ہیں، جن کی اجازت شریعت میں نہیں ھے،اس میں شک نہیں کہ شرعی لحاظ سے یہ امور ناجائز ہیں ،اگر چہ ویڈیو گرافی کے ناجائز ہونے سے راقم کو اتفاق نہیں ،ہندوستان کے اکثر صاحب نظر علماء کی رائے یہ ھے کہ دعوتی اور تعلیمی مقاصد کیلئے ویڈیو گرافی کرنا اور اس طرح کے پروگرام بنانا،ان کو نشر کرنا اور دیکھنا سب جائز ھے،ہندوستان کے ممتاز فقہی ادارہ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا نے 2011 میں اپنے سمینار منعقدہ رامپور میں اس بابت تفصیلی تجویز منظور کی اور مؤقر علماء اور فقہاء نے اس سے اتفاق

What is needed for human betterment

 انسانی بہتری کے لئے آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ کوئی قانونی ڈھانچہ یا مادی سازوسامان نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، جو آدمی کے اندر یہ جذبہ ابھارے کہ وہ اپنی اندرونی تحریک سے صحیح کام کرنے پر مجبور ہو اور غلط سمت میں جانے سے بچے، یہ کام صرف مذہب کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چند سو برس پہلے بڑے جوش سے دعوی کیا گیا تھا کہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں، مذہب حرام و حلال کے کچھ اصول دیتا ہے وہ ہم اپنے قانون ساز ادارے کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں، مذہب دوسری دنیا کی سزا سے ڈراتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو اس کے لیے ہمارا عدالتی نظام اور ہماری جیلیں کافی ہیں، مذہب یہ ترغیب دلاتا ہے کے ہمارے حکموں کو مانو گے تو تمہاری اگلی زندگی خوشگوار ہوگی، اس کے لئے بھی ہم کو موت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، اپنی مادی ترقیوں کے ذریعے ہم اسی دنیا کی زندگی کو جنت بنا سکتے ہیں، مگر یہ تمام امیدیں واقعات کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہیں، اور اب انسان دوبارہ اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، لمبی مدت تک ٹھوکریں کھانے کے ب

عاشوراء كے موقع پر اہل وعیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا تحقیقی جائزہ

 *عاشوراء کے موقع پر اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنے والی روایت کا ایک علمی و تحقیقی جائزہ*   ١٠/ محرم الحرام کے موقع پر بال بچوں پر دل کھول کر خرچ کرنے اور دسترخوان وسیع کرنے والی ساری روایتیں حد درجہ ضعیف اور کمزوور ہیں ، علت اور ضعف سے خالی کوئی ایک روایت بھی نہیں ، ہم ایک ایک روایت پر سب سے آخر میں تفصیلا گفتگو کریں گے ، ابھی سردست کچھ دوسری ایسی باتیں پیش کرنی ہیں جو اس حدیث کو ناقابل اعتبار ثابت کرتی ہیں ،جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ یہ سب روایتیں نہایت  درجہ ضعیف  بلکہ موضوع ہیں ، جن کا اعتبار نہیں کیاجا سکتا ، ماہرین کا ان کی بابت یہ خیال   ہے کہ شیعوں کی ضد میں کچھ ناصبیوں نے یہ روایتیں گڑھ لی ہیں ، چونکہ شیعہ ١٠ / محرم الحرام کو غم کا دن مانتے ہیں ، کھانے پینے کا اہتمام نہیں کرتے ہیں ، اس لیے ان کی ضد میں ناصبیوں نے خوب کھانے پینے اور اہل وعیال پر خرچ کرنے کی روایات گڑھ لیں ، اور ایک جشن اور تہوار کی شکل دے دی ، ورنہ تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کہیں بھی زیادہ کھانے پینے  اور اہل وعیال پر دہانے کھولنے کی ہمت افزائی نہیں کی گئی ہے ، بلکہ اس کے بر عکس اقرباء پروری ، یتیموں او

قانون کی ناکامی اور مذہب کی جیت

  پچھلے سماج میں مذہب جو کام کر رہا تھا  وہ یہ تھا کہ صدیوں کے دوران میں مختلف بزرگوں کی تعلیم و تلقین کی وجہ سے کچھ خاص تصورات لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گئے تھے ، اور ان کے خلاف سوچنا یا عمل کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا،  مذہب کی منسوخی کے بعد جب یہ گرفت ڈھیلی ہو گئی تو اس کی جگہ لینے کے لیے اصلاحی قسم کے قوانین وجود میں آئے،  دوسرے لفظوں میں خدا کی اطاعت گزاری کی جگہ قانون کی حکمرانی نے لے لی،قانون اس متعین ضابطے  کو کہتے ہیں  جس کو کسی سماج میں لازمی طور پر قابل تسلیم قرار دیا گیا ہو، اور جس کی خلاف ورزی پر آدمی کو سزا دی جا سکتی ہو ، اس قسم کے قوانین ہر ملک میں وسیع پیمانے پر بنائے گئے اور اس طرح گویا زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں ریاست کی طرف سے حکما یہ بتایا گیا کہ وہ صحیح ترین رویہ کیا ہے جسے آدمی کو اختیار کرنا  چاہیے ،مگر ان قوانین کا فائدہ صرف یہ ہوا کہ جو برائی پہلے سیدھے طریقے سے ہوتی تھی وہ ہیر پھیر کے ذریعہ ہونے لگی، قانون صرف برائی کی شکلوں کو بدلا ہے، اصل برائی کو روکنے میں وہ بالکل ناکام ثابت ہوا ہے۔  حکومت دیکھتی ہے کہ کاروباری لوگ چیزوں میں ملاوٹ کر رہے ہیں، ناجائز اسٹ

حسین ابن علی مجاہد خلافت،شھید خلافت

 *محرم کے مہینے کا وہ دن خلافت راشدہ کو پوری طرح سے  نیست و نابود کر دینے کا دن تھا؛ ایک طرف جہاں اُس دن عالم اسلام کا سب سے عظیم سانحہ پیش آیا کہ الله کے رسول کے نواسے اور اُن کے خاندان کے دیگر افراد کو تہہ تیغ کر ڈالا گیا وہیں دوسری طرف الله کے رسول کے ہاتھوں پروان چڑھے نظام سیاست کو بھی پارہ پارہ کر خاندانی جاگیرداری نظام کو مسلمانوں کے گلے کا طوق بنا دیا گیا؛ اللہ کی پناہ؛یہ دن ہمیں بار بار الله کے رسول کے ہاتھوں سینچی گئی، خلفاء راشدین کے ہاتھوں پھلنے، پھولنے اور کِھلنے والی پیاری خلافت راشدہ کی یاد دلاتا ہے، افسوس؛ اِسے ایسا روندا گیا کہ پھر کِھل نہ سکی*  حسین نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور اس کے حکم پر شہید کئے گئے، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے، تاہم حسین یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ اسے کافر سمجھتے تھے، اور نہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ اسے فاسق سمجھتے تھے۔ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ یزید کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے۔  یزید نے حسین کا حق غصب کیا تھا نہ حسین کے خاندان کا حق غصب کیا تھا، اس نے امت کا حق غصب کیا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک امت کو اپ

سید قطب شہید،سوانح حیات

 .            #سیدقطب_شہید🌏#وفات29اگست  🔖پیدائش : 9 اکتوبر 1906 ؛ موشا ، محافظہ اسیوط ،  خديويت مصر 🔖وفات : 25 اگست 1966 (عمر  59 سال) قاھرہ ، مصر 🔖نسل : مصری دور اکیسویں صدی  🔖مذھب : اسلام  🔖مکتب فکر : اھل سنت  🔖شعبۂ عمل : اسلام ، سیاست ، تفسیر قرآن (تفسیر قرآن) 🔖اھم نظریات : زمانہ جاہلیت ، عبودیت ، الہہ ، حاکمیت ، دین کی سہی تعریف  🔖کارہائے نماياں : تفسیر فی ظلال القرآن (In the Shade of Quran) ، معالم فی الطریق (Milestones) 🔖مؤثر : عبدالقاہر جرجانی ، ابن قیم جوزیہ ، حسن البنا ،  الیکسس کارل ، عباس العقاد ، سید ابو الاعلی مودودی #سیدقطب کا اصل نام سید ھے جب کہ قطب ان کا خاندانی نام ھے ۔ ان کے آباء و اجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رھنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وھاں سے ھجرت کر کے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ھو گئے تھے ۔ سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ھوئی ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم  قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد میں یہیں پروفیسر ھو گئے ۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ھوئے

مذہب اور معیشت

 مذہب معاشیات کی جو تنظیم کرتا ہے اس میں ذرائع  پیداوار پر انفرادی ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ اس کا سارا ڈھانچہ بنیادی طور پر انفرادی ملکیت کے اوپر قائم ہے یہ نظام عرصے تک باقی رہا مگر صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں انفرادی ملکیت کے اصول پر زبردست تنقیدیں شروع ہوئیں، یہاں تک کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی عام فضا اس کے خلاف ہوگئی، انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول کے درمیان سو برس تک ایسی فضا رہی گویا انفرادی ملکیت ایک مجرمانہ قانون تھا جو دور وحشت میں انسانوں کے درمیان رائج ہوگیا ، اور اب جدید علمی ترقی نے اجتماعی ملکیت کا اصول دریافت کیا ہے جو معاشیات کی بہتر تنظیم کے لئے اعلی ترین اصول ہے، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار اجتماعی ملکیت کے نظام کا تجربہ شروع ہوا زمین کے ایک بڑے حصے میں اس کو نافذ کیا گیا اس کے حق میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے، بڑی بڑی امیدیں باندھی گئیں، مگر طویل تجربے سے ثابت ہوگیا کہ اجتماعی ملکیت کا نظام نہ صرف یہ کہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے اپنے قیام کے لیے تشدد پیدا کرتا ہے، نہ صرف یہ کہ وہ انسان کی ہمہ جہتی ترقی میں مانع ہے، نہ صرف یہ کہ سرمایہ داری سے بھی زیاد

کیا حقیقت صرف اتنی ہے جتنا کہ ہم دیکھ رہے ہیں

 سائنس ہرگز یہ دعوی نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی کہ حقیقت صرف اسی قدر ہے  جو حواس کے ذریعہ بلاواسطہ  ہمارے تجربے میں آئی ہوں،  یہ واقعہ کہ پانی ایک رقیق اور سیال چیز ہے، اس کو ہم براہ راست اپنی آنکھوں کے ذریعہ دیکھ لیتے ہیں، مگر یہ واقعہ کے پانی کا ہر مالیکیول ہائیڈروجن کے دو ایٹمس اور آکسیجن کے ایک ایٹم پر مشتمل ہے، یہ ہم کو آنکھ سے یا کسی خوردبین سے نظر نہیں آتا، بلکہ صرف منطقی استنباط کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے، اور سائنس ان دونوں واقعات کی موجودگی یکساں طور پر تسلیم کرتی ہے،  اس کے نزدیک جس طرح عام پانی ایک حقیقت ہے جو مشاہدے میں نظر آرہا ہے اسی طرح وہ تجزیاتی پانی بھی ایک حقیقت ہے جو ناقابل مشاہدہ ہے اور صرف قیاس کے ذریعہ معلوم کیا گیا ہے، یہی حال دوسرے تمام حقائق کا ہے ،اے ای مینڈر  لکھتا ہے: "جو حقیقتیں ہم کو براہ راست حواس کے ذریعہ معلوم ہوں ، وہ محسوس حقائق ہیں، مگر جن حقیقتوں کو ہم جان سکتے ہیں وہ صرف انہیں محسوس حقائق تک محدود نہیں ہیں، ان کے علاوہ اور بہت سی باتیں ہیں جن کا علم اگرچہ براہ راست ہم حاصل نہیں کر سکتے پھر بھی ہم ان کے بارے میں جان سکتے ہیں اس‌ علم کا ذریعہ استنب

دینی طبقات کی ناکامی کا سبب باھمی اختلافات ہیں

 دینی طبقات کی ناکامی کا سبب باہمی اختلافات ہیں      آپ کو مولانا مودودیؒ پر علمی دلائل کے ساتھ تنقید کرنے کا اسائنمنٹ ملا، اس کی تفصیلات کیا ہیں، اس کا مقصد کیا تھا؟ امتیاز مروت: مولانا مودودیؒ کی ایک تحریک ہے، انہوں نے اقامتِ دین کی جدوجہد کی۔ ان کی ایک فکر تھی، انہوں نے ایک سیاسی جماعت قائم کی۔ مولانا مودودیؒ سے رقابتکی بنیاد پر مختلف دینی طبقوں نے ان کی مخالفت کی۔ چونکہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا بلکہ ایسی جماعت سے تھا جو مولانا کی مخالفت کرتی تھی، اس لیے ہم بھی اس مخالفت میں آگے تھے۔ ایک کتاب میں نے لکھی ہے جس کا عنوان ’’کاروانِ حریت‘‘ ہے۔ یہ جمعیت علمائے اسلام کے فضائل پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں بھی میں نے مولانا مودودیؒ کا ذکر مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ کیا ہے کہ جس طرح مرزا قادیانی تجدیدِ دین کے نام پر دین میں تخریب کرنا چاہتے تھے، اسی طرح مولانا مودودی بھی یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ مولانا مودودی پر ایک منفرد تنقیدی کتاب لکھیں۔ بہت سے معترضین ہیں جنہوں نے مولانا مودودی پر تنقیدی کتابیں لکھی ہیں، میں نے کوشش کی کہ ایسی کتاب لکھوں جو ان سب میں بہترین ک

موت کے بعد دوسری کی تجرباتی شہادت

 کیا کوئی تجرباتی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری پہلی زندگی خود اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے ،جو لوگ دوسری زندگی کے منکر ہیں وہ یقینی طور پر پہلی زندگی کا اقرار کر رہے ہیں پھر جو زندگی ایک بار ممکن ہے وہ دوسری بار کیوں ظہور میں نہیں آ سکتی، ایک تجربہ جس سے آج ہم دو چار ہیں وہی تجربہ اگر دوبارہ ہمارے ساتھ پیش آئے تو اس میں استحالہ کی کون سی بات ہے،  حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں اس سے زیادہ خلاف عقل بات اور کوئی نہیں ہو سکتی  کہ ایک واقعہ کو آپ حال میں تسلیم کریں مگر مستقبل کے لیے اسی واقعہ کا انکار کردیں،  یہ موجودہ انسان کا عجیب تضاد ہے کہ کائنات کی توجیہ کے لئے خود اس نے جو خدا گڑھے ہیں ان کے بارے میں تو وہ پورے یقین کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتا ہے کے وہ واقعات کو دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں مگر مذہب جس خدا کا تصور پیش کرتا ہے اس کے متعلق اسے یہ تسلیم نہیں ہے کہ وہ واقعات کو دوبارہ وجود میں لے آئے گا، جیمز جینز یہ بتاتے ہوئے کہ موجودہ زمین اور اس کے تمام مظاہر ایک حادثہ کے پیدا کردہ ہیں ، اس نظریے کے حامیوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے ، &qu

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

  *1-* سن 2013 میں مسلم ترکی ملک کی کل ملکی پیداوار ایک ٹریلین سو ملین ڈالر تھی جو کہ مشرق وسطی کی مضبوط ترین تین اقتصادی قوتوں یعنی ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ اردن شام اور لبنان جیسے ملکوں کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ *2-* اردگان نے سالانہ تقریبا 10 پوائنٹس کے حساب سے اپنے ملک کی معیشت کو 111 نمبر سے 16 نمبر پر پہنچا دیا، جس کا مطلب ہے کہ ترکی دنیا کی 20 بڑی طاقتوں (G-20) کے کلب میں شامل ہوگیا ہے۔ *3-* اردگان نے ترکی کو دنیا کی مضبوط ترین اقتصادی اور سیاسی قوت بنانے کے لیے سن 2023  کا ہدف طے کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ترکی اس عزم میں کامیاب ہوتا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ *4۔* استنبول ایئرپورٹ یورپ کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہے۔ اس میں یومیہ 1260 پروازیں آتی ہیں۔ مقامی ایئر پورٹ کی صبح کی 630 فلائٹس اس کے علاوہ ہیں۔  *5۔* ترک ایئر لائن مسلسل تین سال سے دنیا کے بہترین فضائی سروس ہونے کا اعزاز حاصل کر رہی ہے۔ *6-* سالوں کے دوران ترکی نےجنگلات اور پھل دار درختوں کی شکل میں 2 بلین 770 ملین درخت لگائے ہیں۔ *7-* اپنے اس دور حکومت میں ترکی نے پہلا

انسان کے بنیادی سوالات

 فریڈرش اینگلس نے کہا ہے آدمی کو سب سے پہلے تن ڈھکنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کو روٹی چاہیے اس کے بعد ہی وہ فلسفہ و سیاست کے مسائل پر غور کر سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے جس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے وہ یہ سوال ہے کہ  میری زندگی کیسے شروع ہوئی اور کہاں جا کر ختم ہوگی ،یہ انسانی فطرت کے بنیادی سوالات ہیں، آدمی ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے جہاں سب کچھ ہے مگر یہی ایک چیز نہیں، سورج اسکو روشنی اور حرارت پہنچاتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے اور کیوں انسان کی خدمت میں لگا ہوا ہے،ہوا اس کو زندگی بخشتی ہے مگر انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کو پکڑ کر پوچھ سکے کہ تم کون ہو اور کیوں ایسا کر رہی ہو، وہ اپنے وجود کو دیکھتا ہے،مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے، کس لیے دنیا میں آگیا، ان سوالات کا جواب دینے  سے انسان کا ذہن قاصر ہے مگر انسان بہرحال ان کو معلوم کرنا چاہتا ہے، وہ سوالات لفظوں کی شکل میں متعین ہو کر ہر شخص کی زبان پر نہ آئیں مگر انسان کی روح کو پہچان لیتے ہیں اور اس شدت سے ابھرتے ہیں کہ آدمی کو پاگل بنا دیتے، " انگلس "کو دنیا ایک ملحد  انسان کی حیثیت س

ارطغرل اور ٹیپو سلطان

 *"فتوے، ارطغرل اور ٹیپو سلطان"*   چند برس قبل بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کام کرنے والے ایک نوجوا ن نے  بتایا کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی بھر پور ٹریننگ دی جاتی ہے۔مختلف ناموں سے شناخت بناکر سوشل میڈیا پر کسی مسلم ایشو کو لےکر بحث شروع کروائی جاتی ہے یا قرآن و حدیث و شریعت کو لےکر دل آزاری کی جاتی ہے۔ جس طرح کے فتوے آجکل بعض علما ارطغرل ڈرامہ سیریل کے حوالے سے صادر کر رہے ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں شہید ٹیپو سلطان پر مبنی سیریل کو بھی کچھ اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا۔ ارطغرل پر نشانہ کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ نوجوان نسل اس میں اپناروشن اورتابناک ماضی،حمیت اور تہذیب وثقافت تلاش کرنے لگی ہے۔ بھگوان گڈوانی کے ناول دی سورڈ آف ٹیپوسلطان پر سیریل بنانے کا بیڑا معروف بالی ووڈ اداکار اور ہدایت کار سنجے خان نے اٹھایا تھا۔ وہ خود ہی ٹیپو سلطان کا کردار بھی نبھا رہے تھے۔ اس سے قبل دوردرشن سے ہندو اساطیری کہانیوں رامائن اور مہابھارت پر سیریل ٹیلی کاسٹ ہو چکے تھے۔ شاید سیکولرازم کا بھرم رکھنےکے لیے حکومتی ذمہ داروں نے ان دو مقبول سیریلوں  کے بعد بہادر ش