ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

زوال تدريس

 



تعليمى اداروں كے كاركنوں كو بالعموم تين  شعبوں ميں تقسيم كيا جاتا ہے، ہيئت تدريسيه يعنى مدرسين، شعبۂ رابطۂ عامه اور ہيئت اداريه يعنى انتظاميه.

انتظاميه كى ذمه دارى ہے كه  وه تدريسى عمل كے لئے ہر ممكن سہوليات فراہم كرے، اس كى حيثيت معاون كى ہے، وه خود كو مدرسين كے بالمقابل نه سمجهے اور نه ان كى راه ميں كوئى ركاوٹ پيدا كرے۔

شعبۂ رابطۂ عامه كا كام مدارس اور عوام ميں  ربط پيدا كرنا ہے، يعنى مدارس كے ذريعه عوام كى ضروريات پورى كرنا، اور عوام كے ذريعه مدارس كى ضروريات پورى كرنا، اس كے تحت دو اہم شعبے ہوتے ہيں، ايك محصلين كا جو مدارس كے لئے مالى امداد كے حصول كى كوشش كرتے ہيں، دوسرے مبلغين وواعظين، جو عوام كى تذكير كا كام كرتے ہيں۔

تيسرے شعبۂ تدريس، تعليمى اداروں كا اصل كام جن كى وجه سے ان كا وجود ہے تدريس ہے، تدريس معاشره كا سب سے زياده قابل احترام پيشه ہے، اور مدرسوں كے اندر مدرسين ہى كو سب سے زياده اہميت ملنى چاہئے، كيونكه معيارى  تدريس كے بغير مدارس كا وجود بے معنى ہے۔


مدرسين كى افسوسناك صور حال:

افسوس كه آج كل مدرسين اپنے مقام  بلند سے نا آشنا ہيں، اپنى ذمه داريوں كى عظمت سے غافل، اور طلبه كى علمى ترقى سے بے پرواه، مدرسين كے ذہنوں ميں يه واہمه راسخ ہوگيا ہے كه ان  كے سامنے ترقى كى سارى راہيں مسدود ہيں، ترقى كا معيار ان كے نزديك مال وجاه ہے، اس لئے ان كى اكثريت تدريس پر قانع نہيں ہوتى، بلكه مدارس كے دوسرے شعبوں ميں دخل اندازى كے لئے بے چين رہتى ہے، كچه مدرسين محصلى كے كام پر لگ جاتے ہيں، اور ان علاقوں ميں تحصيل چنده كے لئے مقابله آرائى كرتے ہيں جہاں پيسے زياده ہوں، ان كى اس مقابله آرائى  كى قيمت خود علم كو دينى پڑتى ہے، اور علم ہى  كو لوگ ذليل ورسوا سمجهنے لگتے ہيں۔

مدرسين كى ايك دوسرى جماعت وعظ وتقرير ميں لگ جاتى ہے، اس سے انہيں شہرت حاصل ہوتى ہے، عوامى مقبوليت بڑهتى ہے اور مالداروں سے تعلقات قائم كرنے كى راه ہموار ہوتى ہے، اس ميدان ميں انہيں جاه بهى ملتى ہے  اور دولت بهى۔

چونكه انتظاميه كو اقتدار حاصل ہوتا ہے، اس لئے بعض مدرسين كى نگاہيں انتظامى عہدوں پر ہوتى ہيں، با وقار انتظامى عہدے محدود ہيں، مثلا ناظم، صدر، مہتمم وغيره، اس لئے ان عہدوں كے لئے رسه كشى ہوتى ہے، اور بہت سارا وقت سازشوں اور لڑائى جهگڑوں ميں ضائع ہوجاتا ہے، كتنے اداروں كى بربادى، تقسيم  يا كمزورى كا سبب اقتدار كى ہوس اور اس كے لئے تنافس وتسابق رہا ہے۔

بہت سے مدرسين كو يه شكايت ہوتى ہے كه انتظاميه نے ان كے لئے ترقى كے دروازے بند كرديئے ہيں، يا تو اپنے اعزه واقارب كو ترجيح ديتے ہيں يا چاپلوسى كرنے والوں كو، اس كا نتيجه يه ہے كه تدريس كے علاوه ہر شعبه معزز سمجها جاتا ہے، اور ترقى كى ايك ايسى مادى تفسير  ذہنوں ميں بيٹهه گئى ہے، جس كى وجه سے تدريس ميں  منحصر رہتے ہوئے ترقى كا امكان نظر نہيں آتا۔


تدريس كا الميه:

ظاہر ہے كه اس صورت حال ميں تدريس كا  زوال  يقينى ہے، اور تدريس كے زوال كا اثر ہے كه فارغين كى بڑى تعداد علوم وفنون سے بے بہره ہے، اس الميه كے ذمه دار مدرسين ہيں۔

جو مدرسين چنده وصول كرنے كے لئے وقتا فوقتا غائب رہتے ہيں  طلبه كى دلچسپى ان كے موضوعات سے كم ہو جاتى ہے، اور انتظاميه چونكه ان كى ممنون ہوتى ہے اس لئے ان سے  كوئى باز پرس نہيں ہوتى، اور تدريس كى ذمه داريوں كو نظر انداز كرنا ان كا معمول بن جاتا ہے۔


سب سے زياده نقصان ده مدرسين:

مدارس كے لئے سب سے زياده نقصان ده وه مدرسين ہيں جو وعظوں اور تقريروں ميں مشغول ہوتے ہيں، اور دعوت وتبليغ كے نام پر ملك وبيرون ملك كے دورے كرتے رہتے ہيں، ان مقررين كے دو عظيم نقصان ہيں:

ايك يه كه  يه لوگ كثرت سے ناغه كرتے ہيں، اسفار اور پروگراموں كے بار   گراں كى وجه سے  تهكے ماندے كلاسوں ميں آتے ہيں، اور نہايت كسلمندى سے پڑهاتے ہيں۔

دوسرے يه كه ان كو مطالعه كا موقع نہيں ملتا، دروس پر تقريروں كا رنگ غالب ہوتا ہے، نه بحث وتحقيق اور نه ابتكار وندرت خيالى، مشتملات عوامى ہوتے ہيں اور دلائل خطابى،  لہذا طلبه ان موضوعات ميں كوئى صلاحيت نہيں پيدا كرتے، ان كى قوت استدلال مرده ہوجاتى ہے، ان كے اندر صحيح وغلط كے درميان تمييز پيدا كرنے كے ملكه كا فقدان ہوجا تا ہے، ان دروس كے بعد طلبه نه كسى علمى مسئله پر گفتگو كرسكتے ہيں،  نه كوئى مدلل بات كه سكتے ہيں، اور نه علمى غلطيوں اور دلائل كى كمزوريوں پر  كوئى گرفت كر سكتے ہيں۔


مسئله كا حل:

اگر ہم علم كے معيار كو بلند كرنا چاہتے ہيں، اور طلبه كى علمى صلاحيت بڑهانے كى ہميں فكر ہے، تو اس كے لئے مناسب اقدامات كرنے ہوں گے، اور اس سلسله ميں نه  كوئى مراعات يا سستى ہو، ا ور نه كوئى تساہل روا  ركها جائے، ميرے خيال ميں  تدريس كو صحيح سمت عطا كرنے كے لئے درج ذيل اصول كا التزام ضرورى ہے:

1- مدرسين انتظامى امور سے بالكل دور رہيں، نه اس مدرسه ميں كوئى  انتظام سنبهاليں جس ميں پڑهاتے ہيں اور نه كسى اور تعليمى يا غير تعليمى اداره ميں۔

2- مدرسين محصلى كا كام ترك كرديں، نه اپنے مدرسه كے لئے چنده كريں اور نه كسى اور مدرسه يا اداره كے لئے۔

3- مدرسين عوامى جلسون، وعظ اور تقرير كے كاموں سے پرہيز كريں، عوامى تقريريں تدريس كى ذمه دارى كے لئے سم قاتل ہيں، مدرسين صرف علمى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت كريں جن سے ان كے موضوعات ميں مددملے، معيارى سيميناروں اور كانفرنسوں ميں شركت سے ان كا جمود ختم ہوگا اور بحث وتحقيق سے ان كى دلچسپى بڑهے گى۔


مدرسين كى ترقى:

مدارس كى انتظاميه كا فريضه ہے كه جو مدرسين يكسو ہو كر كام كر رہے ہين ان كى قيمت كو سمجهيں، اور ان كى تنخواه اتنى ہو كه وه آسانى سے گزر بسر كرسكيں، اور بے فكرى سے اپنى ذمه دارى پورى كرسكيں۔

مدرسين كو معلوم ہونا چاہئے كه ان كى ترقى انتظامى، مالياتى امور يا خطابت ووعظ سے وابسته نہيں، بلكه ان كى ترقى ان موضوعات ميں ہے جن كو وه پڑها رہے ہيں، آج ہمارے پاس كسى بهى علم وفن كے ماہرين نہيں، اگر ہر مدرس اپنے موضوع كو اپنا مشغله بنا لے، اور اس ميں مطالعه وتحقيق جارى ركهے، تو ہمارے پاس اچهے ادباء، محدثين، مفسرين، فقہاء ومتكلمين وغيره كى كمى نہيں ہوگى۔

ماہرين فن كى قيمت سے كسى كو انكار نہيں، اگر آپ كسى فن ميں مہارت پيدا كرليں تو مشرق ومغرب ميں آپ كى عظمت كے گيت گائے جائيں گے، آپ كے ذريعه علوم وفنون كى نشأت ثانيه ہوگى، اور اہل علم وتحقيق كى ايسى نسل تيار ہوگى جو ملت كى ہمت جہت ترقى ميں معاون ہوگى۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ