ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

دینی طبقات کی ناکامی کا سبب باھمی اختلافات ہیں

 دینی طبقات کی ناکامی کا سبب باہمی اختلافات ہیں


    

آپ کو مولانا مودودیؒ پر علمی دلائل کے ساتھ تنقید کرنے کا اسائنمنٹ ملا، اس کی تفصیلات کیا ہیں، اس کا مقصد کیا تھا؟


امتیاز مروت: مولانا مودودیؒ کی ایک تحریک ہے، انہوں نے اقامتِ دین کی جدوجہد کی۔ ان کی ایک فکر تھی، انہوں نے ایک سیاسی جماعت قائم کی۔ مولانا مودودیؒ سے رقابتکی بنیاد پر مختلف دینی طبقوں نے ان کی مخالفت کی۔ چونکہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا بلکہ ایسی جماعت سے تھا جو مولانا کی مخالفت کرتی تھی، اس لیے ہم بھی اس مخالفت میں آگے تھے۔ ایک کتاب میں نے لکھی ہے جس کا عنوان ’’کاروانِ حریت‘‘ ہے۔ یہ جمعیت علمائے اسلام کے فضائل پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں بھی میں نے مولانا مودودیؒ کا ذکر مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ کیا ہے کہ جس طرح مرزا قادیانی تجدیدِ دین کے نام پر دین میں تخریب کرنا چاہتے تھے، اسی طرح مولانا مودودی بھی یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ مولانا مودودی پر ایک منفرد تنقیدی کتاب لکھیں۔ بہت سے معترضین ہیں جنہوں نے مولانا مودودی پر تنقیدی کتابیں لکھی ہیں، میں نے کوشش کی کہ ایسی کتاب لکھوں جو ان سب میں بہترین کتاب ہو۔ اس کتاب کے لیے میں نے مولانا مودودیؒ کی تنقیدی عبارات کو، جو اصل کتابیں ہیں اُن میں دیکھنے کی کوشش کی۔ سابقہ معترضین کی کتابوں سے استفادے کی کوشش نہیں کی۔ وہاں سے صرف متنازع عبارات نقل کرکے ان کو مولانا کی کتابوں میں تلاش کرتا تھا۔ اس کام کے ذریعے پہلی بار مجھے ان کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ اس سلسلے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مولانا مودودی کی کتابوں کو پڑھنا تو کجا، ہاتھ بھی لگانے سے آدمی گمراہ ہوجاتا ہے۔ یہ باتیں ہم طالب علمی کے زمانے سے سنتے آرہے تھے، اس لیے ہم نے کبھی مولانا مودودی کی کتابوں کو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس تنقیدی کتاب کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مولانا مودودی کی اصل کتابوں کو ہم نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ معترضین نے سیاق و سباق سے ہٹ کر مولانا مودودی کی عبارات کو لیا ہے اور اس کا وہ مفہوم ہی نہیں بنتا جو مفہو م معترضین نے ان سے اخذ کیا ہے۔ تمام متنازع مقامات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ مولانا مودودیؒ کے خلاف جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ محض سیاسی رقابت کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں، کسی بھی اعتراض میں ایسا وزن نہیں ہے، نہ ان کی عبارات میں کوئی ایسی عبارت ہے، نہ عقائد میں کوئی ایسا عقیدہ ہے کہ جس کی بنیاد پر مولانا مودودیؒ کو گمراہ ٹھیرا دیا جائے۔ البتہ بعض مقامات پر مولانا کے تفردات ہیں، وہ ایسے ہیں کہ ان پر مولانا مودودی کو گمراہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس قسم کے تفردات اکابر علمائے دیوبند، بریلوی مکتبہ فکر یا اہلحدیث مکتبہ فکر کے علماء کے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، بلکہ دیوبند بریلوی اختلاف سے بھی پہلے جو علماء گزرے ہیں اُن کی کتابوں میں بھی تفردات موجود ہیں۔ کسی کے تفرد، یا جمہور سے ہٹ کر کسی تحقیق پر اسے گمراہ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ قرآن و سنت کے قوانین کی صریح مخالفت نہ کرے۔ مولانا مودودی کی کتابوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی، اس پر میں نے مناظرے کا چیلنج کیا کہ کوئی مولانا مودودی کی متنازع عبارات پر مناظرہ کرنا چاہتا ہے تو میدان میں آجائے۔ ایک سال تک مسلسل چیلنج کرتا رہا، لیکن کسی نے میرے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔


 مناظرے کا چیلنج آپ نے جمعیت علمائے اسلام میں رہتے ہوئے دیا؟

مولانا مودودی پر تنقیدی کتاب لکھنے کے دوران جب میں نے تمام متنازع عبارات کو ان کی اصل کتابوں سے دیکھا اور موازنہ کیا تب میں نے فیصلہ کیا کہ مولانا مودودی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور مجھے مولانا مودودی کی تحریک کا دست و بازو بننا چاہیے۔


 جب آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ جو اعتراضات کیے گئے وہ بددیانتی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، تو آپ نے اپنے سابقہ ساتھیوں سے اس موضوع پر گفتگو کی؟


امتیاز مروت: ایک اجلاس جس میں کچھ علما جو ہمارے ساتھی تھے، شاگرد تھے اور دوست تھے، شریک ہوئے۔ میں نے اُن سے کہا کہ مولانا مودودی کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کے لکھنے والوں نے بددیانتی کی ہے، وہ نیک لوگ تھے لیکن یہ غلطی ہے۔ نیک لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہم کسی نیک آدمی سے متعلق کہیں کہ اُس سے غلطی ہوہی نہیں سکتی تو ہم نے اس کو نبوت کے منصب پر پہنچادیا۔ ہم نے یہ احتیاط کی ہے کہ اُن کے تقویٰ پر شک نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ یہ غلطی ہے۔ جس طرح تفردات پر مولانا مودودی سے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ مولانا مودودی سے غلطی ہوئی ہے، اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ان اکابرین سے بھی غلطی ہوئی ہے۔ مولانا مودودی کی کتابوں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کسی بات پر ان کو گمراہ قرار دیا جائے۔ میں نے اس حوالے سے علماء کو بلایا، یہ تمام باتیں میں نے اُن کے سامنے رکھیں اور یہ بھی کہا کہ مولانا مودودی کی کتابیں موجود ہیں اور یہ معترضین کی کتابیں ہیں، آپ مجھے بتائیں جو ان میں موجود ہوں۔ اُس وقت تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، لیکن مشورہ انہوں نے یہ دیا کہ جماعت اسلامی میں نہ جائیں، اس لیے کہ یہاں آپ کا ایک کردار ہے، نام ہے، تعارف ہے، جماعت اسلامی والے آپ کو یہ مقام دیں گے نہیں، اور آپ کا اُس علاقے سے تعلق ہے جو مولانا فضل الرحمن کا آبائی حلقہ انتخاب ہے، وہاں جماعت اسلامی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تو فیصلہ کرچکا ہوں۔ اور پھر میں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکرلی۔


 مولانا پر اعتراضات کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکثر اعتراضات مسلکی اختلاف کی بنیاد پر اٹھائے گئے ہیں۔ ان کی کتابوں کو پڑھے بغیر صرف مسلکی تعصب کی بنیاد پر اعتراضات، یا ان کو گمراہ قرار دینا، اور ان کتابوں کو نصاب کا حصہ بنانا… اس کے معاشرے پر کیا اثرات دیکھتے ہیں، اور علماء کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟


 مولانا مودودی پر جو تنقیدی کتابیں لکھی گئی ہیں اس کی ایک وجہ تو سیاسی رقابت تھی۔ دوسری وجہ عقیدت تھی، یعنی اپنے اکابر سے عقیدت کی بنیاد پر لکھی گئیں کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ صرف … ہے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا … فتنہ مودودی منسوب ہے کہ انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی سے میں نے پوچھا کہ مولانا مودودی کے بارے میں آپ کس بنیاد پر لکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ تراشے بھیجتے رہے ہیں اور میں ایک رائے قائم کرتا رہا ہوں۔ صرف تراشے بھیجنا اور ان تراشوں کو پڑھنا، اور ان کی بنیاد پر ایک شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنا، یہ محض اس بنیاد پر ہوا ہے کہ جو لوگ تراشے بھیجتے رہے وہ ان کے مرید تھے، ان کے ساتھ عقیدت کا تعلق تھا، یا علماء تھے۔ اس عقیدت کی بنیاد پر وہ فتوے لکھے گئے، تحقیق نہیں کی گئی۔ مولانا مودودی پر تنقیدی کتابیں اکثر ایوب خان کے زمانے میں لکھی گئی ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں میڈیا کے ذریعے مولانا مودودی کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا۔ اُس زمانے میں مولانا کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ گمراہ ہیں، یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ اسی تقلید میں علماء آئے اور کتابیں لکھتے رہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا مودودی نے اپنے لٹریچر میں اسلام کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے کسی مسلک، کسی فرقے کی ترجمانی نہیں کی۔ سب سے زیادہ گلہ اور غصہ جو علماء کو تھا وہ اس بنیاد پر تھا کہ مولانا مودودی نے ہمارے مسلک کی ترجمانی کیوں نہیں کی۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کا یہی عنصر ہے کہ انہوں نے خالص اسلام کی ترجمانی اور اقامتِ دین کی جدوجہد کی بات کی ہے، اقامتِ دین کی جدوجہد کی بات سے سیاسی رقیبوں کو غصہ آیا۔ انہوں نے مولانا پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی، مولانا مودودی کے خلاف کتابیں لکھیں، مطالعہ کسی نے نہیں کیا، اور جن لوگوں نے مطالعہ کیا جیسے مولانا یوسف، جو جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث تھے، انہوں نے جب مطالعہ کیا تو وہ جماعت اسلامی میں آگئے۔ کئی بڑے علماء ہیں جنہوں نے مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھ کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ لوگ مطالعہ نہیں کرتے۔ مولانا کے بارے میں اتنا تعصب اور پروپیگنڈا ہے کہ کوئی مولانا کی کتاب کو پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔ باقی معاشرے پر بھی اس کے اثرات ہیں۔ ظاہر ہے اگر بڑے بڑے پیر اور بڑے بڑے علماء کسی شخصیت کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کریں تو ہر عالم کے کچھ ارادت مند اور عقیدت مند ہوتے ہیں، کوئی اور متاثر ہو یا نہ ہو، اُن کے عقیدت مند تو اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کے خلاف پروپیگنڈا انفرادی سطح پر ہو تو اس کے اثرات بھی انفرادی ہوتے ہیں، لیکن پوری ایک جماعت، پورا ایک گروہ کسی شخصیت کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرے تو ظاہر ہے معاشرے پر اس کے اجتماعی اثرات ہوتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے خلاف اجتماعی طور پر منفی پروپیگنڈا کیا گیا تو ظاہر ہے معاشرے میں اس کا ایک منفی اثر قائم ہوا۔ یہ بھی مولانا مودودیؒ کی کرامت ہے کہ اتنا زیادہ منفی پروپیگنڈا ہونے کے باوجود بھی آج جماعت اسلامی دینی جماعتوں میں صفِ اول کی جماعت ہے۔ اتنا پروپیگنڈا اُن اکابر علماء جو ہندوستان اور پاکستان میں گزرے ہیں، کے خلاف ہوتا تو ان کا نام ونشان مٹ جاتا۔ یہ تو مولانا مودودیؒ کی کرامت ہے کہ اتنی مخالفت کے باوجود آج مذہبی دنیا میں مولانا مودودیؒ کا ایک نمایاں نام ہے۔ بلکہ آج عرب دنیا کی جامعات میں مولانا مودودیؒ کی کتابیں داخلِ درس ہیں۔ اور جماعت اسلامی اس وقت ملکی اور عالمی بڑی تنظیموں میں ایک تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح مصر میں، ترکی میں اور دیگر اسلامی ممالک میں مولانا مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوکر لوگ انقلابی قیادت کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ تو مولانا کی کرامت ہے کہ22 سال کی عمر میں آپ نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھی۔ اُس وقت سے اُن لوگوں نے مخالفت کی کہ جن کے نام کی لوگ تسبیح پڑھتے ہیں۔

علماء کے سامنے بڑے بڑے چیلنج ہیں جن میں مغرب ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن وہ ان کو دیکھنے کے بجائے جزوی چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے دینی تحریکیں پاکستان میں کوئی بڑا مقام حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کا حل آپ کیا تجویزکرتے ہیں؟


امتیاز مروت: اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں، عالم اسلام کے سیاسی نشیب و فراز کا مطالعہ کریں اور دیکھیں تو جہاں بھی ہمیں دینی طبقات کی ناکامی نظر آتی ہے، اس کا سبب آپس کا اختلاف ہے۔ ہم جب سقوطِ بغداد کو دیکھتے ہیں، بخارا و سمرقند جہاں امام بخاریؒ درس دیتے تو ایک درس میں پچاس پچاس ہزار شاگرد ہوتے۔ لیکن ایسے حالات آئے کہ اسی بخارا میں ان مدارس کو گھوڑوں کا اصطبل بنادیا گیا۔ وہاں ایک طرف اغیار سازشیں کرتے، اور علماء ان مسائل میں الجھے ہوئے تھے کہ کوّا حلال ہے کہ حرام۔ جو لوگ مسلکی اور فروعی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، دراصل وہ غیر شعوری طور پر برطانیہ کے اس ایجنڈے کے آلہ کار بنتے ہیں کہ ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘۔ جبکہ مولانا مودودیؒ کی تعلیم اور دعوت یہ ہے کہ مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈالو اور اقامتِ دین کے لیے مل کر جدوجہد کرو۔ فروعی اختلافات سے بڑھ کر مخالفت، پھر مخاصمت، پھر اس سے بڑھ کر مضاربت اور پھر مقاتلت… اس کی وجہ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ امتِ مسلمہ یہ اختلافات ترک کردے، صرف اس بنیاد پر یہ سوچے کہ اس وقت اسلام کے خلاف جو چیلنج ہیں، جو یہود و نصاریٰ کی سازشیں ہیں ان کو کیسے ناکام کریں، اس کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرے تو اتنی دینی جماعتیں ہیں اور اتنے لوگ ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے اقامتِ دین مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔


 آپ کے علاقے میں جماعت اسلامی کا کام نہیں تھا، آپ کی شمولیت کے بعد وہاں کیا اثرات مرتب ہوئے؟


امتیاز مروت: دو ہزار لوگوں نے اپنے نام لکھ کر دیے ہیں کہ جماعت اسلامی میں شامل ہورہے ہیں۔ 155 جید علماء ٹانک سمیت پورے پختون خوا سے جماعت اسلامی میں شامل ہوچکے ہیں۔ الحمدللہ ہمارا مشن ختمِ نبوت ہے۔ ختمِ نبوت کے اس پلیٹ فارم پر ہم مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو دعوت دیتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر ان کے آنے سے جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی ایک قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ جماعت اسلامی سے بغض اور عدم رابطہ کی وجہ سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء جماعت اسلامی میں شامل ہورہے ہیں۔

 آپ جس وقت جمعیت علمائے اسلام میں شامل تھے، اُس وقت جماعت اسلامی کا امیج آپ کے ذہن میں کیا تھا؟


امتیاز مروت: جماعت اسلامی کے بارے میں جس طرح عام علماء کا نظریہ ہے اسی طرح ہمارا بھی تھا۔ اس سے ذرا سخت بھی تھا، اور سوچ یہ تھی کہ جماعت اسلامی ایک گمراہ جماعت ہے، مولانا مودودیؒ یہودی ایجنٹ ہیں اور وہ تجدید دین کے نام پر تخریبِ دین چاہتے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں مولانا مودودیؒ کے خلاف جلسے بھی کرتے تھے، تقریریں بھی کرتے تھے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، میں نے اپنی کتاب ’’کاروانِ حریت‘‘ میں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اور ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کا حوالہ بھی دیا اور مولانا مودودی پر گمراہی کا فتویٰ لگانے کے لیے بھی ان کتابوں کا حوالہ دیا، جب کہ ان کتابوں کو میں نے دیکھا تک نہیں تھا، صرف معترضین کی کتابوں پر اکتفا کرتے ہوئے میں نے ان سے یہ حوالے نقل کیے اور اپنی کتاب میں درج کیے۔ بعد میں جب مجھے تحقیق کا موقع ملا اور میں نے مولانا کی اصل کتابوں کو دیکھا تو اپنے سابقہ مؤقف سے رجوع کیا۔

معیت علمائے اسلام سے جماعت اسلامی کی جانب سفر پر مولانا فضل الرحمن کا کیا ردعمل تھا؟


امتیاز مروت: مولانا فضل الرحمن کا اس حوالے سے کوئی خاص ردعمل نہیں تھا، اس لیے کہ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ مفتی امتیاز اگر جماعت اسلامی میں چلے گئے ہیں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، نہ ان کے ساتھ دوچار آدمی ہیں، کوئی فکر والی بات نہیں ہے۔ اس وجہ سے مولانا فضل الرحمن مطمئن تھے کہ اگر ایک فرد گیا ہے تو لوگ جماعتوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر جب جماعت اسلامی میں ہمارا کام بڑھا اور 5جولائی کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق پہلی مرتبہ ٹانک تشریف لائے اور انہوں نے خود کہا کہ ٹانک میں اس سے پہلے کوئی امیر جماعت نہیں آیا، نہ یہاں جلسہ ہوا۔ یہ پہلا جلسہ تھا، جو بہت کامیاب ہوا، مختلف چینلوں نے اس کو خاص کوریج دی۔


 ایم ایم اے کی بحالی کے بعد آپ کا ان دونوں جماعتوں کے حوالے سے کیا کردار ہوگا؟


امتیاز مروت: میں چونکہ ختمِ نبوت کا مبلغ ہوں اور چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کی حفاظت ہم اس صورت میں بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں کہ امت میں اتحاد ہو۔ افتراق و انتشار پیدا نہ ہو۔ ہم نے یہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور آئندہ بھی کریں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کے علماء جو مولانا مودودیؒ کے بارے میں بدگمانی رکھتے ہیں اُن کے پاس جائیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ مولانا مودودیؒ کے بارے میں حُسنِ ظن رکھیں اور ان کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ ایم ایم اے بننے کے بعد ایک جلسے میں، مَیں نے تقریر کی۔ وہاں مجھ سے پہلے مقررین نے ایم ایم اے کو سراہا اور کہا کہ بہت اچھا ہوا اتحاد بنا، وغیرہ۔ میں نے اس جلسے میں کہا کہ اتحاد سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دونوں جماعتیں ایک ہوجائیں۔ عقائد ہمارے ایک ہیں، اللہ، اس کا رسول اور قرآن سب کچھ ہمارا ایک ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے علماء نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ امتِ مسلمہ اور پاکستان میں سیکولر پارٹیاں ہیں، ان کا مقابلہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتیں ایک ہوجائیں۔ میں نے کہا کہ اس میں جو رکاوٹ ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ مولانا مودودیؒ کو گمراہ سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے جس جماعت کا بانی گمراہ ہے اُس جماعت کے ساتھ آپ انضمام کیسے کرسکتے ہیں! میں نے کہا کہ آئو میرے ساتھ بیٹھ جائو، ان کی کسی کتاب میں ایسی بات ہے تو اس کی نشاندہی کرو۔ اسی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام سے علماء جماعت اسلامی میں آرہے ہیں۔ ابھی چارسدہ کے ایک مدرسے میں جہاں دورہ حدیث ہوتا ہے، اس مدرسے کے تمام اساتذہ، شیخ الحدیث، مہتمم سمیت پورا مدرسہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا۔ ایک بہت بڑے پیر ہیں بونیر میں، گزشتہ مہینے وہ ہزاروں مریدوں کے ساتھ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ایک اور پیر صاحب ہیں جو امریکہ میں بھی رہے ہیں، پشاور میں رہتے ہیں، بڑے عالم ہیں، بنوری ٹائون کراچی کے فاضل ہیں، وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے ہیں۔ بہت سے علماء آرہے ہیں کہ مولانا مودودیؒ کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں، اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر تو عمارتیں کھڑی نہیں کی جاسکتیں۔ الحمدللہ فضا بدل رہی ہے، ہمیں اس پر اطمینان ہے۔


ایم ایم اے، بحالی کے بعد کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟


امتیاز مروت: ایم ایم اے کا سب سے بڑا فائدہ ماضی میں ہمیں یہ ملا ہے کہ وہ حلقے جہاں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن وہ سیٹ نہیں جیت سکے ایم ایم اے کی برکت سے ان علاقوں سے وہ سیٹیں حاصل کرلیں۔ پارلیمانی سیاست میں کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کے کتنے لوگ جیت گئے اور کتنے ہار گئے ہیں۔ ایم ایم اے چونکہ پارلیمانی سیاست کے لیے ایک اتحاد ہے، مستقبل میں بھی یہی امید ہے کہ اگر کسی صوبے میں جماعت اسلامی کی چھے یا سات سیٹیں ہیں تو ان شاء اللہ ڈبل ہوں گی۔


 عالمی اور ملکی صورت حال میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی ہے، ایسے میں ایم ایم اے کے لیے کیا امکانات ہیں؟


امتیاز مروت: نائن الیون کے بعد اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے امارتِ اسلامیہ افغانستان پر حملہ کیا اور غاصبانہ قبضہ کیا، اس صورت حال کے ردعمل میں ایم ایم اے وجود میں آئی۔ طالبان کے سقوط پر صرف دینی جماعتوں نے مزاحمت کی تھی، باقی کسی اور نے نہیں کی۔ اس لیے ردعمل میں بہت جوش کے ساتھ لوگوں نے ایم ایم اے کا ساتھ دیا اور بڑی کامیابی ملی۔ اِس مرتبہ شاید وہ صورتِ حال نہ ہو، لیکن پھر بھی دینی لوگ چاہے وہ کسی بھی جماعت یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، سیکولر جماعتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دینی جماعتوں کا اتحاد ہو۔ اس لیے امید ہے کہ نتائج اچھے ہوں گے۔


 مولانا مودودیؒ کی کس کتاب نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا؟


امتیاز مروت: مولانا مودودیؒ کی ہر کتاب میں ایک الگ روشنی ہے، اس میں الگ جاذبیت ہے، مواد ہے۔ لیکن ’’تجدید احیائے دین‘‘ اور ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ بہت بہترین کتابیں ہیں۔ ہر سطح کے لوگوں کے لیے الگ کتابیں ہیں۔ جیسا کہ’’ دینیات‘‘ ہے، یہ پانچویں کلاس سے لے کر پی ایچ ڈی، اور آگے ہر سطح کے لوگوں کے لیے ایک بنیادی کتاب ہے۔ اس طرح ’’تنقیہات‘‘ مولانا مودودیؒ کی وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے نصف صدی پہلے نصف صدی بعد کے حالات کا جو تجزیہ کیا ہے وہ آج درست ثابت ہورہا ہے ۔ اسی طرح ’’تفہیمات‘‘ ہے، ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ ہے، ’’قادیانی مسئلہ‘‘ ہے۔ مولانا نے ختم نبوت پر سورہ احزاب کا جو ضمیمہ لکھا ہے وہ لاجواب ہے۔


فرائیڈے اسپیشل: مولانا کے ختم نبوت کے کام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟


امتیاز مروت: اصل میں ختمِ نبوت کے حوالے سے خود ختمِ نبوت کے مبلغین کو چاہیے تھا کہ وسعتِ ظرف کا مظاہرہ کرتے اور ختم نبوت کے لیے جن جن اکابرین نے خدمات انجام دی ہیں اُن کا تذکرہ کرتے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں جہاں ختم نبوت کے لیے کام کرنے والوں کا تذکرہ ہوتا ہے وہاں مولانا مودودی کا ذکر نہیں ہوتا، جب کہ ختم نبوت کے حوالے سے مولانا مودودی کی کلیدی خدمات ہیں۔ 1953ء میں مولانا نے قادیانی مسئلہ پر جو رسالہ لکھا ہے اس میں بنیادی طور پر قادیانیوں کی ایک بہت بڑی سازش جس میں وہ بلوچستان کو ایک الگ قادیانی ریاست بنانا چاہتے تھے، کو بھی بے نقاب کیا ہے، اس کی پاداش میں جیل گئے اور موت کی سزا ہوئی۔ مرزا غلام احمد کا بیٹا ہے بشیرالدین محمود، اس نے 1953ء میں گورنر پنجاب کے نام ایک خط لکھا، یہ خط قادیانیوں کی کتاب ’’تاریخ احمدیت‘‘ کی جلد نمبر 16 میں موجود ہے۔ اس خط میں اُس نے مولانا مودودیؒ کی شکایت کی ہے کہ مولانا مودودی جارح آدمی ہیں اور یہ ہمارے خلاف بہت زیادہ لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ اگر دشمن گواہی دیتا ہے اور گورنر سے شکوہ شکایت کرتا ہے کہ یہ ہمارے خلاف لٹریچر تقسیم کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر خدمت اور کیا ہوسکتی ہے! سیالکوٹ کا ایس ایچ او قادیانی تھا، مولانا کی کتاب ’’شہادتِ حق‘‘ پڑھنے کے بعد مسلمان ہوگیا۔ پھر 1974ء میں نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ نے ملتان ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈہ گردی کا مقابلہ کیا۔ یہ کون تھے؟ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان مولانا مودودی کے روحانی فرزندان تھے۔ انہی کی کوشش اور تحریک سے 7 ستمبر1974ء کو پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس جو 1985ء میں بنا ہے، مولانا گوہر رحمن کی کوششوں سے بنا ہے جو جماعت اسلامی کے صوبائی امیر تھے۔ قراردادِ مقاصد کے علامہ شبیر احمد عثمانی نے 22نکات لکھے تھے جس کی توثیق مولانا نے کراچی جیل سے کی تھی۔ وہ قراردادِ مقاصد آئینِ پاکستان کے دیباچہ کے طور پر شامل ہوئی، آئین کا قابلِ نفاذ حصہ نہیں تھی۔ یہ 1985ء میں مولانا گوہر رحمن کی کوششوں سے آئینِ پاکستان کا قابلِ تنفیذ حصہ قرار پائی۔ یہ ساری خدمات ہیں جماعت اسلامی کے اکابرین کی۔ اس طرح ناموسِ رسالتؐ کا قانون بھی مولانا گوہر رحمن کی کوششوں سے منظور ہوا۔ اس سے پہلے گستاخِ رسول کی سزا عمرقید تھی۔ انہوں نے قرآن و سنت کے حوالے سے پارلیمنٹ میں دلائل پیش کیے، پھر یہ قانون بنا کہ گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔ ان خدمات کو ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر بیان نہیں کیا جاتاجو بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہ صرف مولانا مودودی کے ساتھ زیادتی نہیں ہے بلکہ ختم نبوت کے اس مشن کے ساتھ زیادتی ہے کہ جس مشن کے ذریعے امت کو جوڑا جاسکتا ہے۔ اس مشن سے آپ امت میں توڑ پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی پروگرام ہورہے ہیں ان میں ہم نے مولانا نورانی، مفتی محمود ، پیرمہر علی شاہ گولڑہ شریف اور تمام حضرات کے نام لیے ہیں اورسب کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم متفقہ پلیٹ فارم ہے تمام مسالک کے لیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ختم نبوت کے شعبے سے بھی تمام لوگ مستفید ہوں گے۔


فرائیڈے اسپیشل:آپ نے تجدید و احیائے دین کا ذکر کیا ہے۔ مولانا نے دین میں ریاست کا جو تصور پیش کیا ہے اُس میں عبادت ٹریننگ کا کام کرتی ہے، لیکن علماء اعتراض یہ کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے حکومتِ وقت اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا ہوئی اور ایک ہی کام رہ گیا کہ ان کو ہٹانا مشن بن گیا، جس کی وجہ سے اسلام کو نقصان پہنچا؟


امتیاز مروت: مولانا مودودیؒ نے یہ بات قرآن و سنت سے ہٹ کر تو نہیں کی، بلکہ قرآن نے تخلیقِ کائنات کی جو وجہ بتائی ہے، آدم کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔ خلیفہ کا جو لغوی ترجمہ ہے کہ ایک گھوڑے یا سواری پر اگر دو سوار ہوں، ایک سوار آگے ہے جس کے ہاتھ میں لگام ہے، اس کے پیچھے جو دوسرا سوار ہے اس کو خلیفہ کہا جاتا ہے۔ خلیف کا معنیٰ یہ ہے کہ اصل جس طرف جائے گا خلیف بھی ساتھ جائے گا۔ اللہ حاکم ہے، اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا ہے تاکہ یہ اللہ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا جو سبب بتایا وہ حکومتِ الٰہیہ کا قیام بتایا۔ یہ تو بنیاد ہے، لیکن حکومتِ الٰہیہ کو نافذ وقائم کرنے کے لیے ایک روحانی اور قلبی صفائی کی ضرورت ہے تاکہ اس میں اخلاص ہو، اس میں ملوکیت نہ ہو، اس میں حکومت طلبی نہ ہو۔ اس صفائیِ قلب کے لیے عبادات ہیں۔ آپ ان عبادات کے ذریعے سے روح کو صاف کرسکتے ہیں۔ اپنے اخلاق کو صاف کرسکتے ہیں تاکہ وہ ماحول پیدا کریں جس میں اللہ کا نظام نافذ ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی یہ بات تو قرآن و سنت کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔


فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی میں پہلی ملاقات کس سے ہوئی تھی؟


امتیاز مروت: میں نے جب اپنے فیس بُک پیج پر یہ پیغام چلایا کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا ہوں اُس وقت میرا جماعت اسلامی کے کسی فرد سے تعارف نہیں تھا۔ اسلام آباد میں رفاہ یونیورسٹی میں ایک ساتھی ہیں، انہوں نے سب سے پہلے مجھ سے رابطہ کیا اور ملاقات کی، اور جماعت اسلامی کے جو بڑے بزرگ ہیں میاں اسلم صاحب، وہ میرے پاس اسلام آباد تشریف لائے۔ یہ بڑی سطح کی قیادت سے میری پہلی ملاقات تھی۔


فرائیڈے اسپیشل:آپ نے دیوبند میں بھی تعلیم حاصل کی، وہاں کا تجربہ کیسا رہا؟


امتیاز مروت: میں نے تین مہینے وہاں تعلیم حاصل کی۔ میں وزٹ ویزے پر وہاں گیا تھا، وہاں سے میں نے شیخ الحدیث مولانا حسن جان کے پاس، اس کے بعد کراچی میں نظام الدین لدھیانوی کے پاس بھی کچھ وقت گزارا۔


فرائیڈے اسپیشل: علمائے دیوبند میں کن بڑے علماء سے آپ نے فیض اٹھایا؟


امتیاز مروت: دیوبند میں مفتی حسن محمود گنگوہی، جنہوں نے فتاویٰ محمودیہ لکھا ہے وہ اُس وقت شیخ الحدیث تھے، اُن سے مجھے براہِ راست استفادے کا موقع ملا۔ مولانا اظہر شاہ کشمیری جو دارالعلوم وقف کے شیخ الحدیث ہیں اُن سے بھی استفادے کا موقع ملا ہے۔ پاکستان میں مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا حسن جان شہید اور مفتی نعیم صاحب بھی ہمارے استاد ہیں۔ مولانا اسلم شیخوپوری استاد رہے ہیں۔


فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟


امتیاز مروت: جماعت اسلامی میں آیا تو میں کسی کو جانتا نہیں تھا، نہ مجھے کسی نے دعوت دی تھی، نہ کسی کو پتا تھا۔ میرے فیس بک پر سارے فرینڈز جے یو آئی کے لوگ تھے۔ وہاں پر تو فوراً پتا چل گیا کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا ہوں۔ انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ ختم نبوت کے حوالے سے میرے جو پروگرام اُن کی مساجد میں ہوتے تھے وہ بند ہوگئے کہ مودودیت پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام آباد میں ختم نبوت کے حوالے سے ہمارے جو پروگرام ہوتے تھے انہی میں فنڈنگ ہوتی تھی جس سے ہمارے دفتر کے اخراجات وغیرہ چلتے تھے، وہ سارا سلسلہ بند ہوا۔ میرے پاس ذاتی گاڑی تھی وہ میں نے بیچ دی۔ اپنے اخراجات کے لیے ایسے حالات آگئے۔ اسلام آباد میں سردی بہت ہوتی ہے۔ ہوٹلوں کا بھی میں مقروض تھا۔ 30 روپے کے چنے خرید کر کھا لیتا اور رات گزر جاتی۔ میرا بیٹا ہری پور میں مدرسے میں پڑھتا تھا، وہ جمعرات کوکبھی کبھی آجاتا تھا۔ ایک بار آیا رات کو، تو میں سوچنے لگا کہ اس کو کھانا کہاں سے کھلائوں گا؟ میں نے 30 روپے کے چنے لیے۔ سامنے کمپیوٹر تھا، وہاں میں نے چنے رکھے اور دو دانے اٹھائے تو وہ بھی شروع ہوگیا۔ اس نے وہ چنے کھا لیے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا: بیٹے چلو کھانا کھانے چلتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ابو میں اب کھانا نہیں کھائوں گا، میں نے چنے کھالیے، اب گنجائش نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ چلو پھر میں کھاکے آتا ہوں۔ میں نیچے چلا گیا اور گھوم پھر کر واپس آگیا۔ ایسے حالات ہوگئے تھے۔ ان حالات نے مجبور کیا کہ میں یہ کام چھوڑ کر گائوں چلا جائوں۔ پھر کچھ ایسے خواب آئے اور ایسے حالات سامنےآئے، پھر اس کام پر اللہ نے استقامت دی، اس کی مدد آئی


میرے دوستوں نے مجھے طعنے دیے کہ ختم نبوت کے کام سے اللہ نے تجھے محروم کردیا۔ پہلے ہر جگہ تیری تقریر ہوتی تھی، بیانات ہوتے تھے، اب مہینوں پڑے ہوتے ہو، کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ بعض لمحات میں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھاکہ شاید میں اس کام سے محروم ہوجائوں۔ میں کوشش کرتا کہ ختم نبوت کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح سے چلتا رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ ختم نبوت کی اس آواز کو اتنی طاقت بخشی اور غیبی مدد کی کہ ابھی ہمارے پاس شیڈول میں کوئی فارغ دن نہیں ہوتا۔ گھر والے کہتے ہیں کہ کب آرہے ہو، تو میں وقت دیتا ہوں کہ 10 تاریخ کو آرہا ہوں، پھر کہیں سے بلاوا آتا ہے تو گھر والوں کو دوسری تاریخ دیتا ہوں۔ اس پر میری گھر والی نے کہا کہ اگر طلاق میرے ہاتھ میں ہوتی تو میں تمہیں فارغ کردیتی کہ جائو سراج الحق اور مشتاق احمد خان کے پیچھے پھرو۔ اتنی مصروفیت ہے کہ گھر جانے کا وقت نہیں ملتا۔ میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ امت کے اتحاد کا بہترین سبب بنے گا، امید ہے کہ ختم نبوت کا کام کرنے والی دوسری تنظیموں کے ساتھی بھی ہمارے ساتھ شامل ہوکر کام کریں گے۔


جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بعد آپ کے گھر والوں کا ردعمل کیا تھا؟


امتیاز مروت: گھر والے پریشان تھے۔ مولوی روزانہ تقریریں کرتے تھے کہ یہ گمراہ ہوگیا ہے، ایجنٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ گھر والے تو اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ وہ سوچتے کہ یہ سارے علماء فتوے دے رہے ہیں آخر کوئی بات تو ہوگی۔ ایک مرتبہ گھر والوں نے فون کیا کہ جماعت اسلامی کے سوا کوئی اور جماعت نہیں تھی؟ تبلیغی جماعت میں چلے جاتے۔ میں نے پوچھا کیوں کیا ہوا؟ تو بتایا کہ مولوی نے فتویٰ دیا ہے کہ مفتی امتیاز کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ میں نے کہا کہ نکاح کے وقت ایجاب و قبول میں نے کیا تھا یا اُس مفتی نے کیا تھا؟ کہنے لگیں: آپ نے کیا تھا۔ میں نے کہا: وہ مفتی کون ہوتا ہے؟ ایجاب و قبول میں کروں اور نکاح وہ توڑے! کہنے لگیں: آٹھ نو مفتیوں نے اس پر دستخط کیے ہیں۔ میں نے کہا کہ آٹھ نو بچے تو اللہ نے ہمیں بھی دیے، اب اگر ٹوٹ بھی جائے تو فکر کی بات نہیں ہے۔ فتویٰ اور اس طرح کی چیزیں سامنے آگئیں جس سے اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کی نے اپنے ایک بچے کا ذکر کیا…؟


امتیاز مروت: وہ دیوبندیوں کے مدرسے میں پڑھتا تھا۔ ایک درس میں ایک استاد نے کہا کہ اس کا والد مرتد ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کسی بچے کے سامنے یہ کہا جائے تو اس کی جذباتی کیفیت تو ہوتی۔ میرا بیٹا بہت پریشان ہوا۔ مجھ سے تو اُس نے اس کا ذکر ایک سال بعد کیا لیکن اُس وقت وہ بہت پریشان تھا کہ یہ کیا ہوا؟ پھر الحمدللہ حالات ٹھیک ہوگئے۔ ایک سال بعد اس نے مجھے بتایا کہ میرے استاد نے ایسے کہا تھا، اب میں جائوں گا، ان سے مناظرہ کروں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے، آپ کے استاد نے اپنے ایمانی جذبات کی بنیاد پر مجھ پر فتویٰ لگایا۔ پھر میں اس کے استاد کے پاس گیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ایک سال پہلے میرے بیٹے کے سامنے یہ کہا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ نے بڑی حماقت کی ہے۔ اگر آپ کے دل و دماغ میں ایسی بات تھی تو میرے بیٹے کے سامنے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ