ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ

 *متلاشیان حق کے لیے*


*قتل حسین کا حادثہ اور یزید کی بے گناہی ، ایک علمی اور تحقیقی جائزہ*


              حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ام سلمہ کے قول کو یزید کے لیے ڈھال بنانے کی ہر کوشش فضول اور غیر مفید ہے ، اس لیے کہ یہ قتل کا معاملہ ہے ، قاتل مقتول کے خون کے دھبوں سے پکڑا جاتا ہے ، کیونکہ مقتول کے خون کے دھبے قاتل کا پیچھا کرتے رہتے ہیں ، کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے : 


*ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے*

*خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا*

*خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے*

*فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے*

*تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے*

*خون پھر خون ٹپکے گا تو جم جائے گا*

*لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں*

*خون خود دیتی ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ*

*سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب*

*لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ*

*تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا*

*آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے*

*کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر*

*خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے* 

*سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے*

*ظلم کی بات ہی کیا ، ظلم کی اوقات ہی کیا*

*ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تک*

*خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے*

*ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے*

*ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے*

*ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے*


                   جناب حضرت عبد اللہ بن عمر رض کا غصہ جو ایک عراقی محرم (حاجی ) کے اس سوال پر بھڑک اٹھا کہ احرام کی حالت میں مکھی یا مچھر مارنے پر دم لازم ہوگا یا نہیں ؟ اور آپ کا یہ کہنا کہ ان عراقیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو قتل کر دیا ، اور ان کے خون کا مسئلہ نہیں پوچھتے ۔

                 ان کی یہ بات یزید کے لیے براءت کے الفاظ نہیں تھے ، اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو جاہل محض ہے ، یہ اصلا کرائے کے قاتلوں پر غصے کا اظہار تھا ، عراق کے جن یزیدیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے سیدنا حسین کو قتل کیا ، وہ کوئی دودھ کے دھلے ہوئے اور بے قصور لوگ نہیں تھے ، بلکہ وہ بھی قابل صد مذمت اور نفرین تھے ، لہذا ان کی مذمت سیدنا عبد اللہ بن عمر نے کی ، کیا آپ کے پیر محقق ابو یحیی نور پوری کے مطابق یزید کے قاتل ہونے کے لیے ان عراقیوں کی تعریف لازمی ہے ، ورنہ یزید کا قاتل ہونا مشتبہ ہو جائے گا ، اتنا تو سب جانتے ہیں کہ عراق کے یزیدی گورنر کے پاس کوئی شام کی فوج نہیں تھی ، بلکہ وہ یزیدی فوج عراق ہی کی تھی ، اور اس میں کوفیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی ، لیکن اس کا یہ مطلب سمجھنا کہ وہ لازما وہی کوفی تھے ، جنہوں نے سیدنا حسین کو آنے کی دعوت دی تھی ، نری جہالت ہے ، انگریز جب ہندوستان پر حکومت کرتے تھے تو ان کی فوج انگلستان کی نہیں ہوتی تھی ، بلکہ اسی ہندوستان کے لوگ اس کے فوجی تھے ، یہ ایک کامن سی بات ہے ، اگر اتنی سی بات کوئی نہیں سمجھ پاتا ہے ، تو اسے اس میدان میں قدم رکھنے کا ذرا حق نہیں ، لاکھوں کی تعداد میں انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو تختۂ دار پر لٹکایا ، موت کے گھاٹ اتارا ، یہ سارے کام انگریزوں کے دم چھلے اور چمچے ہندوستانی فوجیوں اور افسروں نے انجام دیے ، اس کا مطلب اگر کوئی یہ سمجھتا ھے کہ ان مجاہدین آزادی کو انگریزوں نے سولی پر نہیں چڑھایا ، بلکہ خود ہندوستانیوں نے ہی انہیں سولی پر چڑھا دیا ، بے چارے انگریز تو بے قصور ہیں ، انہیں کیا ضرورت پڑی تھی ان مجاہدین آزادی کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ؟ تو ایسے احمق شخص کو کس نگاہ سے دیکھا جائے گا ؟ اس کے بارے میں عرفان صاحب ! آپ کی کیا رائے ہوگی ؟ بس وہی رائے ابو یحیی نور پوری کے بارے میں بھی ہونی چاہئیے ۔

             ہندوستان کی تاریخ تھوڑی بہت آپ نے بھی پڑھی ہوگی ، اسی طرح ابو یحیی نور پوری صاحب نے بھی پڑھی ہوگی ، لیکن ظاہر ہے صرف تاریخ میں پڑھ کر تو آپ دونوں آدمی اس کی صحت کا یقین نہیں کرتے ہوں گے ، بلکہ بخاری و مسلم کی تائید کے بعد ہی آپ حضرات کو یقین آتا ہوگا ، لیکن ہم لوگ تو تاریخ کو تاریخ کی طرح ہی پڑھنے کے عادی ہیں ، مجھے تو یقین نہیں آتا عرفان صاحب کہ آپ یہ مانتے ہوں گے کہ ابھی ہندوستان کا حالیہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں ، اسی طرح حافظ ابو یحیی نورپوری صاحب بھی کیسے یہ تسلیم کرتے ہوں گے کہ ابھی پاکستان کے حالیہ وزیر اعظم عمران خاں ہیں ؟ اس لیے کہ صحیح سند کی شرط کا ان کے اپنے حساب سے پایا جانا کوئی آسان کام نہیں ، اگر واقعی آپ لوگ ہندوستان اور پاکستان کی موجودہ مرتب تاریخ کو اصولی طور پر درست نہیں مانتے ہوں ، تو یہ چاہے جس قدر بھی حماقت بھرا عمل ہو ، لیکن اس حماقت کے سبب آپ کی پوزیشن اصول پسندانہ ثابت ہو جاتا ھے ، لیکن اگر ہندوستان و پاکستان کی تاریخ کو تو آپ تسلیم کرتے ہوں ، یہاں غیر مستند روایت کا ہونا کچھ آپ کے لیے باعث تشویش نہ ہو ، اور جوں ہی حسین و یزید کی تاریخ سامنے آتی ہے کہ آپ کی اصول پسندی انگڑائیاں لینا شروع کر دیتی ہے ، تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آپ حضرات دوہرے معیار کے لوگ ھیں ، اصول پسندی ایک مکھوٹا ہے جس میں یزیدیت کے بدنما داغ کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

                 اب یہاں پر بغور سن لیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ غصہ کرایے کے ان قاتلوں کے لیے تھا جنہوں نے یزیدی حکومت کی غلامی قبول کرتے ہوئے خون حسین سے اپنے ہاتھ رنگین کیے تھے ، کرایہ کا قاتل بھی مجرم ہی ہوتا ہے ، وہ بھی ظلم میں شریک ہوتا ہے ، اس لیے وہ قابل مذمت ہی ہوتا ھے ،  لیکن جس ظالم نے کرایے کے قاتل کو استعمال کیا ، وہ کیا ہوتا ہے ؟ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت کیوں نہیں کر پاتے آپ لوگ ؟ اصل حقیقت کا انکشاف یہاں سے ہوتا ہے ، لیکن یہاں سے آپ لوگ پہلو تہی کرتے ہیں ، اس وجہ سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ آپ لوگوں کو حق کی تلاش ہر گز نہیں ہے ، بلکہ آپ آنکھ بند کرکے یزید کی وکالت کر رہے ہیں ، پھر آپ کا جھوٹ ، بلکہ نفاق واضح ہو جاتا ہے جب آپ یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ سیدنا حسین اور یزید کا تو کوئی تقابل نہیں ، یزید حضرت حسین کے قدموں کے گرد کے برابر بھی نہیں ، تو پھر خود آپ اپنے عقیدے کے بر خلاف سرگرمیوں میں کیوں مبتلاء ہو جاتے ہیں ؟ وکالت اس کی کرنے لگتے ہیں جو قدموں کے گرد کے برابر بھی نہیں ، حالانکہ صالحین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ وکالت صالحین کی کرتے رہے ہیں ، وہ کبھی ظالموں کی حمایت میں نہیں اٹھتے تھے ، اب ان سب قرائن اور کھلی دلائل کے باوجود جو لوگ یزید کے کردار و عمل کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لازما  ایسے لوگوں کا انجام یزید اور اس کے چیلوں کے ساتھ ہوگا ، ان کا حشر بھی عبید اللہ بن زیاد ، عمر بن سعد اور شمر ذی الجوشن کے ساتھ ہی ہوگا ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :

"المرأ مع من أحب" ، آدمی کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت اور مناسبت ہوگی ۔

                    ہم ہندوستان کے رہنے والے لوگ ہیں ، یہاں کے واقعات ہمارے لیے قابل فہم زیادہ ہوں گے :

گاندھی جی کو ناتھو رام گوڈسے نے قتل کیا ، اس جرم میں اسی کو پھانسی بھی دی گئی ، لیکن جو اہل نظر ہیں وہ جانتے ھیں کہ ناتھو رام گوڈسے صرف کرایے کا ایک قاتل تھا ، اصل قاتل " آر ایس ایس " کے پردے کے پیچھے چھپے رہے ، اسی وجہ سے کئی بار " آر ایس ایس " پر پابندی بھی حکومت کی طرف سے لگائی گئی ، ہوسکتا ہے کسی کم عقل اور کم فہم آدمی کو یہ باریکیاں سمجھ میں نہ آسکیں ، لیکن ہندوستان کا ہر پڑھا لکھا اور با شعور آدمی اس راز کو جانتا ہے ، ویسے جنہیں باریکیاں اگر سمجھ میں نہ آئیں تو دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کام کا بیڑہ ہرگز نہ اٹھائیں ، ہر ایک کو وہی کام کرنا ھے جو وہ کر بھی سکے ، زبردستی بلا استحقاق کرنے کی دھونس بہت بڑی برائی ہے ، اللہ کے غضب سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔

ایک واقعہ ابھی ماضی قریب کا ہے ، اس کی یادیں ابھی ذہن میں تازہ ہیں ، اس سے بھی عقل کی گرہ کھل سکتی ہے ، اگر اندر سے آمادگی ہو ، یہ ٢/ اکتوبر ٢٠١٨ء کا واقعہ ہے ، سعودی شہری جمال خاشقجی ایک بلند قامت صحافی تھے ، انہیں ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر نہایت بے دردی کے ساتھ اور بہیمانہ طریقے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، دنیا کے تمام باشعور اور حقائق سمجھنے والے لوگوں نے بیک زبان یہ آواز اٹھائی کہ انہیں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے قتل کروایا ہے ، طیب اردگان نے حقائق کی تفتیش کرائی ، سعودیہ سے کچھ گرگوں کا آنا ثابت ہوا ، وہ سب محمد بن سلمان کے خاص الخاص اور رازدار قسم کے لوگ تھے ، ان گرگوں کو پھانسی بھی دی جا چکی ، لیکن اصل مجرم کو کچھ نہیں ہوا ، کیونکہ اس کی مدد کے لیے بڑے بڑے شیاطین بہر صورت موجود تھے ، شیاطین کے سوا قاتلین کی حمایت کوئی اور نہیں کرتا ، تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور نوجوانان اہل بیت کے قاتلین کی حمایت کس درجہ کے شییاطین کا کام ہوگا ؟

صحیح کہا ہے کسی کہنے والے نے :


*مدعی سست اور گواہ چست*


             عبید اللہ بن زیاد کی شہادت موجود ہے کہ *اس نے قتل حسین کا اقدام یزید کے حکم و اشارہ پر کیا تھا* ، لیکن آج کے یزید کے چیلے عبید اللہ بن زیاد سے بھی زیادہ بے ضمیر اور بے غیرت ہیں ، جو ان شہادتوں کے ہوتے ہوئے حق کو چھپانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، ہم تو ایسے لوگوں کے بارے میں یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ابن زیاد سے بھی زیادہ گئے گزرے لوگ ہیں ۔

            یزید نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں سیدنا حسین کے خون سے ہولی کھیلی ، جب کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر کی سرکوبی کے واسطے کعبہ پر چڑھائی کرنے کے لیے یزید کی پہلی نظر عبید اللہ بن زیاد پر ہی پڑی تھی ، کیونکہ قتل حسین‌ کے واقعے میں اس نے یزید کے حکم کی تعمیل میں ذرا بھی کمی نہیں کی تھی ، لہذا بیت اللہ شریف کو تاراج کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا ، چنانچہ جب اس نے اس کام کے لیے اس کے پاس خط بھیجا ہے تو بے اختیار اس کی زبان پر یہ حقیقت آگئی 


*و الله لا أجمعهما للفاسق أبدا ، أقتل ابن بنت رسول الله و أغزو البيت الحرام .*


*خدا کی قسم ! اس فاسق کی خاطر کبھی بھی دونوں گناہ اپنے نامۂ اعمال میں جمع نہیں کروں گا ، ایک تو نبی کے نواسے کو قتل کروں اور پھر اب بیت اللہ شریف پر چڑھائی کروں ۔*(البدایہ و النہایہ ٢١٩/٨).

           اب جو لوگ خون حسین سے آلودہ یزید کے دامن کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ کس فطرت کے لوگ ہوں گے ؟ 

کیا وہ ابن زیاد اور ابن سعد سے زیادہ گرے پڑے اور گئے گزرے نہیں ہوں گے ؟ ورنہ وہ اتنی بڑی کھلی بے انصافی اور بے غیرتی پر نہ اتر آتے ۔

               حضرت عبد اللہ بن عمر رض کا عراقیوں کو حسین کا قاتل بتانا کیا یہ کسی طرح بھی یزید کے لیے سامان براءت ہو سکتا ہے ؟ کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ اس نے کربلاء میں جاکر اپنے ہاتھ سے سیدنا حسین کو قتل کیا ، بلکہ اس کا قاتل ہونا اس معنی میں ہے کہ اس نے اپنی جابرانہ حکومت کے استحکام کے لیے نرم خو گورنروں کو معزول کرکے سخت گیر ، ظالم و جابر قسم کے بد عقیدہ گورنر بحال کیے ، مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو معزول کرکے اس کی جگہ عمرو بن سعید اشدق کو بحال صرف اس وجہ سے کیا کہ ولید نے مدینہ میں سیدنا حسین اور عبد اللہ بن زبیر پر یزید کے لیے بیعت لینے میں ویسی سختی نہیں کی جیسی یزید خود چاہتا تھا ، کوفہ میں  سیدنا نعمان بن بشیر کو معزول کرکے سخت گیر ، ظالم و بد عقیدہ ابن زیاد کو کوفہ کی گورنری تفویض کی اور سیدنا حسین کے بارے نہایت سخت اور جارحانہ قسم کے احکام دیے ، بلکہ راستے سے بالکلیہ  ہٹادینے کا حکم صادر کیا  ، اور کوتاہی ، بلکہ نرمی کرنے کی صورت میں انجام بد کی کھلی دھمکی دی ، جس کے نتیجہ میں سیدنا حسین کو کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی راستہ ہی میں کربلاء نامی مقام پر نہایت سفاکانہ طور پر مار ڈالا گیا ، اس سارے کاروبار قتل و سفاکیت کا ماسٹر مائنڈ کون تھا ؟ وہی ماسٹر مائنڈ سب سے بڑا قاتل ہے ، جس کا نام نہایت کراہیت و ناپسندیدگی کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یزید پلید ہے ، ہم دشمنان اہل بیت کو اسی طرح یاد کرتے ہیں ، اور اسے ایمان کا لازمہ سمجھتے ہیں ، لیکن چاپلوسان بنی امیہ اس انکشاف سے بہت گھبراتے ہیں ، اور اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ یزید نے سیدنا حسین کو قتل کرایا ، اب چونکہ قتل نہیں کرانے والی بات چونکہ سراسر جھوٹ اور فراڈ ہے ، اس لیے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی متضاد باتیں انہیں گڑھنی پڑتی ہیں ، اور ان کی ہر بات کس طرح ان کے گلے کا پھانس بن جاتی ہے ، اس کو ذیل میں ملاحظہ کرتے جائیں :

یزید کی گردن چھڑانے کے لیے ایک بات یہ کہتے ہیں کہ *یزید نے حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ ابن زیاد نے اپنے طور پر انہیں قتل کرا دیا* ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو بصرہ کا گورنر تھا ، وہ بصرہ سے قتل حسین کا کام کبھی بھی نہیں کر سکتا تھا ، کیونکہ کوفے کا گورنر سیدنا نعمان بن بشیر تھے ، اور وہ کسی بھی صورت قتل حسین کا ارتکاب نہیں کر سکتے تھے ، لہذا انہیں معزول کرکے بصرہ کے گورنر ابن زیاد کو کوفہ پر مسلط کیا گیا ، اور سخت دھمکیوں کی چھاؤں میں حسین سے نمٹنے کی تاکید کی گئی ، لیکن پھر بھی یزیدی چمچے کہتے ہیں کہ *یزید کا قتل حسین میں کوئی ہاتھ نہیں ، قتل حسین کی ذمہ داری تنہا ابن زیاد کے سر جاتی ہے* ، لیکن چونکہ بات بنتی تو ہے نہیں ، ایک بچہ بھی ٹوک سکتا ہے کہ سب سے بڑا ذمہ دار *جو حسین کی وجہ سے سارے نظام کو زیر و زبر کر ڈالتا ہے اور پھر اسی کا دامن خون حسین سے داغ دار نہیں ہوتا ، یہ کیسی الٹی منطق ہے ؟* کہیں یزیدی چمچوں کا دماغ الٹ پلٹ ہو کر تو نہیں رہ گیا ہے ، تب پھر دوسرا پلٹا کھاتے ہیں اور یہ کہنا شروع کرتے ہیں :

 *اصلا سیدنا حسین کو ان کوفیوں نے مارا جنہوں نے انہیں کوفہ بلایا تھا* ، لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کیوں مارا ؟ یہ بات تو ہضم نہیں ہوتی ، تو کہتے ہیں : 


انہوں نے سازشا انہیں بلایا تھا ، اس لیے انہیں موقع پاکر انہوں نے قتل کر ڈالا ، لیکن چونکہ یہ بات کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوسکتی ، *کیونکہ سیدنا حسین کا قافلہ ابھی کوفہ پہنچا ہی نہیں تھا ، بلکہ کوفہ سے کوئی چھہتر کیلو میٹر پہلے ہی مقام کربلاء پر انہیں قتل کر ڈالا گیا* ، تو پھر کچھ گرگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کوفیوں نے ہی انہیں قتل کر ڈالا جو مکہ سے حضرت کے ساتھ چلے آرہے تھے ، واہ ، کیا ہی دور کی سوجھی ، یعنی ساتھ میں سفر کرنے والے ان کوفیوں نے تمام اہل بیت کو قتل کر ڈالا ، تو اب حامیان یزید کے گلے میں یہ ہڈی پھنسنے لگی کہ جب ان کوفیوں نے اہل بیت کو قتل کر دیا ، *تو پھر اہل بیت کے ساتھ ان کی لاشیں بھی کیوں میدان کربلاء میں پڑی رہیں  ؟ انہیں تو زندہ ہونا چاہئیے تھا ، انہیں کس نے قتل کیا ؟* تمہارے بقول انہوں نے ہی اہل بیت کو سیدنا حسین سمیت قتل کر ڈالا ، تو انہیں کس نے قتل کیا ؟

 تو پھر آخری درجہ کی جہالت اور بے حیائی پر اتر کر کچھ چاپلوسان یزید نے یہ گل کھلائے کہ ان قاتل کوفیوں کو عمر بن سعد کے لشکر نے قتل کر دیا ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ *کوفہ سے چھہتر کیلو میٹر دور کربلاء میں عمر بن سعد کے ساتھ یزیدی لشکر کیا کر رہا تھا ؟ انہیں تو حسین سے کوئی دشمنی نہیں تھی ، دشمنی اور سازش تو کوفہ کے شیعہ کر رہے تھے ، اب یہاں آکر ڈھول کی پول کھل جاتی ہے ،* کیونکہ یہی وہ یزیدی لشکر ہے جس کو عبید اللہ بن زیاد نے قافلۂ حسینی کا خاتمہ کرنے کے لیے بھیجا تھا ، لیکن ابھی ہم انہیں کی بات سنتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ان قاتل کوفیوں کو عمر بن سعد کے لشکر نے سیدنا حسین کا انتقام لیتے ہوئے قتل کر دیا ، لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا کہ *ان کوفیوں کو یزیدی لشکر نے کیوں قتل کیا ؟* وہ تو ان کے محسن ہوئے ، سانپ بھی مر گیا تھا اور ان کی لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی تھی، وہ تو ان کے عظیم محسن ہوئے ، یزیدی لشکر کے ہاتھوں ان کے قتل کیے جانے کا افسانہ تو بالکل الف لیلائی قصہ کی طرح ہے ، اسی طرح اگر شیعہ سازش کے نتیجہ میں سیدنا حسین کو بلا کر قتل کیا گیا تھا ، تو پھر " توابین " کی جماعت کے ساتھ یزیدی لشکر کو عین الوردہ پر گھمسان کی جنگ کیوں لڑنی پڑی ؟ ایک یزید کو بچانے کے لیے یزیدی چمچوں کو کتنے قلابے کھانے پڑے ، کتنی حماقتوں اور جہالتوں سے انہیں گزرنا پڑا ، لیکن بات پھر بھی نہ بن پائی ، واہ ، کیا شتر مرغ کی چال چلی چمچوں نے ، شتر مرغ جب کسی شکاری کی زد میں آجاتا ہے ، اور شکاری جب دوڑا دوڑا کر اسے بے حال کر دیتا ہے تو بالآخر شتر مرغ کو ایک ترکیب سوجھتی ہے ، وہ یہ کہ اپنی گردن کو ریت میں دھنسا کر وہ مطمئن ہو جاتا ہے کہ اب اسے کسی شکاری کا کوئی خطرہ نہیں ، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد شکاری اس پر بجلی بن کر گرتا ہے ، اور شتر مرغ کا خیالی شیش محل چکنا چور ہو کر رہ جاتا ہے ، یہی مثال ان یزیدیوں کی بھی ہے جو تاریخ کو مسخ کرنے اور نئی تاریخ گڑھنے میں شیعوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں رہتے ، ان سے کوئی پوچھے کہ یہ حقائق تم نے کس تاریخ میں پڑھے ہیں ؟ تو پھر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ، اب ذرا کوئی ان سے پوچھے :

*اگر مکے سے ساتھ آرہے کوفیوں نے سیدنا حسین کو قتل کیا تھا ،  تو سیدنا حسین کا سر کس نے کاٹا ؟ اور کٹا ہوا سر کیسے ابن زیاد کے پاس طشت میں سجا کر پیش کیا گیا ؟* 

                اگر وہ قتل حسین پر مامور نہیں تھا ، تو سیدنا حسین کا کٹا ہوا سر اس کے پاس کیسے آیا ؟ *سر تو ہمیشہ دشمن کا لایا جاتا ہے ،* پھر دیکھو ابن زیاد جیسے شقی اور بد نہاد شخص نے اس کٹے ہوئے سر کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ اس کا سلوک یہ تھا کہ وہ چھڑی سے حسین کے چہرے اور ناک کو چھیڑتا رہا ، اگر کوفہ کے شیعوں نے سازشا بلاکر دشمنی نکالنے کے لیے مارا تھا ، تو یہ حرکت تو انہیں کرنی چاہئیے تھی جو خود ابن زیاد کر رہا ہے ، پھر وہ ان کے حسن و جمال کے تعلق سے بدکلامی کرتا ہے ، یہ کام تو مارنے والے شیعوں کو کرنا چاہئیے تھا ، اس کی اس جاہلانہ حرکت پر وہاں موجود صحابیٔ رسول سیدنا انس بن مالک نے اسے ڈانٹ کر یہ کہا کہ یہ لوگوں میں سب سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل ہیں ، (یعنی اگر ان کی شکل و شباہت اچھی نہیں ، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل بھی اچھی نہیں تھی ، یہ تو آپ کی طرح ہیں) ، یہ بخاری کی روایت ہے ، ترمذی نے بھی اس واقعہ کی روایت کی ہے ۔

                 جی ! حافظ ابو یحیی نورپوری صاحب نے جب سنا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے عراقیوں کو قاتل کہا تو مارے خوشی کہ وجد میں آگئے ، یہ خوشی بھی ذہنی میلان اور افتاد کو بتاتی ہے ، یعنی انہوں نے حضرت ابن عمر کی بات کو اپنی نجات کے روپ میں دیکھا ، حالانکہ ایسا تاثر اندر کے عقیدے کی پول کھولتا ہے ، جب کہ ابن عمر نے یزید کے بارے میں کچھ نہیں کہا ، بلکہ کسی اور کی حرکتوں اور کرتوت پر تبصرہ کیا ، لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے ، لہذا حافظ ابو یحیی نورپوری پھولے نہیں سمائے اور وجد میں آگئے ، حالانکہ انصاف کی بات یہ تھی کہ وہ دکھاتے کہ کسی صحابی نے یزید کو قتل حسین سے بری ثابت کیا ہے ، جب کہ ہم اس کے بر خلاف دیکھتے ہیں کہ کئی پہلؤوں سے اس کا جرم روز روشن کی طرح عیاں ہے ، نام لے کر لوگوں نے اسے قتل حسین کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ، خود ابن زیاد کی شہادت پیچھے گزر چکی ہے ، آئیے دیکھتے ہیں صحابہ میں کون کون لوگ اس کا نام لے کر اسے قاتل کہتے ہیں ؟

سیدنا عبد اللہ بن عباس کی خط و کتابت یزید کے ساتھ ہوتی ہے ، وہ کیا کہتے ہیں ؟ وہ کھلے طور پر یزید کو حسین کا قاتل بتاتے ہیں ، یزید کے خط کا جواب دیتے ہوئے مفصل خط اس کے نام لکھتے ہیں ، میں صرف اس خط سے اتنا حصہ نقل کرتا ہوں جس میں انہوں نے یزید کو حسین کا قاتل بتایا ہے :

*" كيف و قد قتلت حسينا و فتيان عبد المطلب مصابيح الهدى و نجوم الأعلام غادرتهم خيولك في صعيد واحد مرملين بالدماء مسلوبين بالعراء مقتولين بالظماء لا مكفنين و لا موسدين ".*(کامل ابن الاثیر ٤/ ٥٠ - ٥١  ).

*اور یہ ہو بھی کس طرح سکتا ہے ؟ حالانکہ تم نے حسین کو اور جوانان عبد المطلب کو قتل کیا ، جو ہدایت کے چراغ اور ناموروں میں ستارے تھے ، تمہارے سواروں نے تمہارے حکم سے ان لوگوں کو آغشتہ بخون ایک کھلے میدان میں اس حال میں ڈال دیا تھا کہ ان کے بدن پر جو کچھ تھا وہ چھینا جا چکا تھا ، پیاس کی حالت میں ان کو قتل کیا گیا اور بغیر کفن کے بے سہارا پڑا رہنے دیا گیا ۔*

اب دیکھیں سیدنا عبد اللہ بن زبیر کس کو حسین کا قاتل بتاتے ہیں ؟

شہادت حسین کی خبر ملنے کے بعد حضرت ابن زبیر اہل مکہ کے سامنے تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ، اور خاص طور سے ذیل کی باتیں یزیدیوں کے تعلق سے صاف صاف ارشاد فرمائیں :

*أ فبعد الحسين نطمئن إلى هؤلاء القوم و نصدق قولهم و نقبل لهم عهدا ، لا و لا نراهم لذلك أهلا ، أما و الله لقد قتلوه ، طويلا بالليل قيامه ، كثيرا في النهار صيامه ، أحق بما هم فيه منهم و أولى به في الدين و الفضل ، أما و الله ما كان يبدل بالقرآن الغناء و لا بالبكاء من خشية الله الحداء و لا بالصيام شرب الحرام  ، و لا بالمجالس في حلق الذكر الركض في تطلاب الصيد .* (تاریخ الطبری /٤٧٤ - ٤٧٥)


*سو کیا اب حسین کے بعد بھی اس حکمراں قوم پر اطمینان کریں ، ان کے قول کی تصدیق کریں اور ان کے عہد (حکومت ) کو قبول کریں ، نہیں نہیں ، ہم ان کو۔ اس کا اہل نہیں سمجھتے ، خدا کی قسم انہوں نے اس حسین کو قتل کیا ہے جو رات کو دیر تک نمازوں میں کھڑے رہتے ، اور دن میں کثرت سے روزے رکھتے تھے ، اور جو اقتدار ان کو ملا ہے ، وہ اس کے ان سے زیادہ حق دار اور دین و فضل کے اعتبار سے زیادہ مستحق تھے ، بخدا وہ تلاوت قرآن کی بجائے گانے بجانے اور خوف الہی سے رونے کی بجائے نغمہ و سرود کا شغل نہیں رکھتے تھے ، نہ روزوں کے بجائے شراب خواری میں مصروف رہتے تھے ، نہ ذکر الہی کی مجالس کو چھوڑ کر شکار کی جستجو میں گھوڑے کو ایڑ لگایا کرتے تھے ۔*

یہ حضرت عبد اللہ بن زبیر تھے ، یہ کن لوگوں کو قاتل بتا رہے ہیں ، راست طور پر حکمراں جماعت کو حسین کا قاتل بتا رہے ہیں ، اور وہاں سیدنا عبد اللہ بن عمر نے یزید کی ذات سے کوئی تعرض کیے بغیر عراقیوں کی مذمت کی تھی ، دونوں کا فرق ضرور ملحوظ رکھیں ۔


*یزید کے بیٹے کی شہادت سب سے بڑھ کر ہے ،* یزید کی موت کے بعد اس کے بیٹے معاویہ نے اپنے باپ یزید کے بارے میں کیا شہادت دی ، اس کے اندر ان لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے جو یزید کی وکالت اور حمایت کرتے نہیں تھکتے ، اپنے باپ کی موت کے بعد مسند حکومت پر متمکن ہو کر وہ علی الاعلان کہتا ہے :

*میرے باپ نے حکومت سنبھالی تو وہ اس کا اہل ہی نہ تھا ، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے سے نزاع کی ، آخر اس کی عمر گھٹ گئی اور نسل ختم ہوگئی ، اور پھر وہ اپنی قبر میں اپنے گناہوں کی ذمہ داری لے کر دفن ہو گیا ، ( یہ کہ کر رونے لگا ، پھر کہنے لگا : جو بات ہم پر سب سے زیادہ گراں ہے ، وہ یہی ہے کہ اس کا برا انجام اور بری عاقبت ہمیں معلوم ہے ، اس نے (میرے باپ نے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت (اولاد) کو قتل کیا ، شراب کو مباح کر دیا ، بیت اللہ کو برباد کیا ، اور میں نے خلافت کی حلاوت ہی نہیں چکھی تو اس کی تلخیوں کو کیوں جھیلوں ؟ اس لیے اب تم جانو اور تمہارا کام ، خدا کی قسم اگر دنیا خیر ہے تو ہم اس کا بڑا حصہ حاصل کر چکے ، اور اگر شر ہے تو جو کچھ ابو سفیان کی اولاد نے دنیا سے کما لیا وہ کافی ہے ۔*(الصواعق المحرقہ ص ١٣٤، مطبوعہ مصر) .

پھر کبھی معاویہ بن یزید کو مسند خلافت پر نہیں دیکھا گیا ، تا آنکہ چھ ماہ بعد اس کا انتقال ہو گیا ، اور ہمیشہ کے لیے حکومت بنی معایہ سے نکل کر بنی مروان کے ہاتھوں میں چلی گئی ، اس طرح یزید کے بیٹے معاویہ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ، اب آنکھوں والے عبرت حاصل کر سکتے ہیں :


*دیکھو ہمیں جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو*


           آپ پر *حجت تمام کرنے کے لیے* نقل کر دیتا ہوں کہ اگر ناواقفیت کے سبب اس گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ، تو پھر روشنی کے بعد ضرور ہی اپنا محاسبہ کریں گے ، اور اگر جان بوجھ کر طبیعت کے میلان کے سبب یزید کی حمایت کررہے ہیں تو یہ بھی بالکل واضح ہوجائے ۔

علامہ ابن کثیر نے " البدایہ و النہایہ " میں یزید کا وہ خط نقل کیا ہے جو اس نے سیدنا حسین کے مکہ سے کوفہ نکلنے پر عبید اللہ بن زیاد کے نام لکھا تھا :

كتب *يزيد إلى ابن زياد أنه قد بلغني أن حسينا قد سار إلى الكوفة و قد ابتلي زمانك 

 بين الأزمان و بلدك من بين البلدان و ابتليت أنت به من بين العمال و عندها تعتق أو تعود عبدا كما ترق العبيد و تعبد ، فقتله ابن زياد و بعث برأسه إليه.( البدایہ و النہایہ ١٦٥/٨)


*یزید نے ابن زیاد کو لکھا کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حسین کوفہ کی طرف چل پڑے ہیں ، اب زمانوں میں تیرا زمانہ اور شہروں میں تیرا شہر ان کے بارے میں مبتلاء آزمائش ہوا ہے ، اور گورنروں میں تو خود ان کے معاملہ میں مبتلاء آزمائش ہو چکا ہے ، اور ایسی صورت میں یا تو تجھے آزاد کر دیا جائے گا ، یا جس طرح غلاموں کو غلام رکھا جاتا ہے تجھے بھی غلام بنا دیا جائے گا ، چنانچہ ابن زیاد نے حضرت حسین کو قتل کرکے ان کا سر یزید کے پاس بھیج دیا ۔*

اس سے پہلے وہ اپنے والد حضرت معاویہ کے انتقال کے فورا بعد جب مسند اقتدار پر براجمان ہوا تھا ، ان لوگوں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کے لیے جو اس کے والد کی حیات میں ہی اس کی ولی عہدی کی بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے تھے ، فکر مند ہو چکا تھا ، چنانچہ فورا ہی ولید بن عتبہ بن ابی سفیا‌ن کے نام جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا ، ایک چھوٹے سے پرچے پر یہ فرمان لکھ کر بھیجا :

*أما بعد ، فخذ حسينا و عبد الله بن عمر و عبد الله بن الزبير بالبيعة أخذا شديدا ليست فيه رخصة حتی یبایعوا ، والسلام .*(البدایہ و النہایہ   ١٤٩/٨ )

*اما بعد ، حسین ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر کو بیعت کے لیے سختی کے ساتھ پکڑو ، اور جب تک یہ لوگ بیعت نہ کر لیں ذرا ڈھیل نہ ہونے پائے ، والسلام ۔*

ذرا آئندہ سطور میں آنے والے اقتباسات کو بغور پڑھ کر دیکھئیے کہ کس طرح بنو امیہ کے غنڈوں کے دلوں میں قتل حسین کا پلاؤ پکتا آرہا تھا اور کتنے دنوں سے پکتا آرہا تھا ، اور کس کس طرح وہ قتل حسین کے مواقع تلاش کرتے آرہے تھے ، چنانچہ ولید کے پاس یزید کا مذکورہ بالا خط جب مدینہ آیا ہے ، تو وہ فتنہ کے ڈر سے گھبرایا ، مروان اور ولید میں ان بن تھی ، لیکن معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس نے مروان کو مشورہ کے لیے طلب کیا ، اس شقی نے آتے ہی جو مشورہ دیا وہ سننے کے قابل ہے :

*عليك بالحسين بن علي و عبد الله بن الزبير ، فابعث إليهما الساعة ، فإن بايعا و إلا فاضرب أعناقهما قبل أن يعلن الخبر .*(الأخبار الطوال ص٢٢٧ و البداية النهاية ١٥٠/٨).

تم پر لازم ہے کہ اسی وقت *حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر کو بلوا لو ، اگر وہ دونوں بیعت کر لیں تو خیر ، ورنہ دونوں کی گردنیں مار دو ، یہ کام معاویہ کی موت کی خبر کے عام ہونے سے پہلے ہو جانا چاہئیے ۔*

ولید نے مروان کے مشورہ کے مطابق سیدنا حسین اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر کو بلا بھیجا ، ان دونوں بزرگوں کے آنے پر انہیں ولید نے حضرت معاویہ کی وفات کی اطلاع دی ، پھر یزید کا فرمان دکھلایا اور بیعت کے لیے کہا ، جس کے بعد ولید اور سیدنا حسین کے درمیان اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی ، آخر کار سیدنا حسین نے ولید کو قائل کر لیا کہ تنہائی کی یہ بیعت تمہارے لیے کافی نہیں ہوگی ، لہذا ابھی رہنے دو ، جب مجمع عام میں لوگوں کو دعوت دوگے اس وقت ہی مجھے بھی بلانا ، یہ ایک مناسب بات ہوگی ، مجھ جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کیا کرتا ، پھر وہاں سے چل نکلنے کے لیے تیار ہوئے ، کہ یکایک مروان ولید سے کیا کہتا ہے ؟ بغور پڑھئیے گا :

*و الله إن فارقك الساعة و لم يبايع لا قدرت منه على مثلها أبدا ، حتى تكثر القتلى بينكم و بينه ، احبس الرجل و لا يخرج من عندك حتى يبايع أو تضرب عنقه .*(تاریخ الطبری ٣٤٠/٥ و البدایہ و النہایہ ١٥٠/٨) .

*خدا کی قسم اگر یہ اس وقت بغیر بیعت کیے تیرے پاس سے چلے گئے تو پھر کبھی تو ان سے بیعت لینے پر اس وقت تک قادر نہ ہوسکے گا جب تک کہ تمہارے اور ان کے ما بین کثرت سے لوگ قتل نہ ہو جائیں ، اس شخص کو قتل کر ، اور جب تک بیعت نہ کرے ، یا اس کا سر نہ قلم کر دیا جائے ، یہ تیرے پاس سے نہ نکلنے پائے*

لیکن ولید مروان کے اس شیطانی مشورہ پر عمل نہ کر سکا ، اس لیے اسے مدینہ کی گورنری سے معزول ہونا پڑا ، اس لیے کہ اس نے زبردستی حسین سے بیعت نہیں لی ، یا بیعت کے لیے تیار نہ ہونے کی صورت میں ان کی گردن نہیں ماری ، لیکن آج کے یزید کے چمچے کچھ زیادہ شرمیلے ہوگئے ہیں ، اس لیے وہ بالکل بے حیا بن کر یزید کی صفائی پر کمر بستہ ہوگئے ہیں ۔  

                  مذکورہ بالا باتوں سے آپ کو تھوڑا بہت اندازہ ہو سکتا ہے کہ قتل حسین یزیدی ٹولے کی  دیرینہ آرزو تھی ، جس کو پورا کر کے اس ٹولے نے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔

                        آپ کے محقق ابو یحیی نورپوری نے حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ام سلمہ کی روایت کی آڑ میں کیا گل کھلانے کی کوشش کی ہے ، ان حضرات کے اہل عراق کو قاتل حسین کہنے کو یزید کے حق میں سند براءت ثابت کرنے کی کوشش فرمانے لگے ، ہمیں ذرا بتایا جائے عبید اللہ بن زیاد عراقیوں میں شامل ہوگا ، یا نہیں ؟ عمر بن سعد عراقیوں میں شامل ہوگا ، یا نہیں ؟ شمر ذی الجوشن عراقی ہے ، یا نہیں ؟ سنان بن انس نخعی عراقی ہے ، یا نہیں ؟ ابن زیاد عراقی گورنر ہے ، ابن سعد عراقی گورنر کا سپہ سالار ہے ، شمر ذی الجوشن عراقی گورنر کا قابل اعتماد رازدار ہے ، سنان بن انس نخعی عراقی گورنر کا دن چھلہ اور چمچہ ہے ، لیکن جب آنکھوں پر پردہ پڑ جائے تو پھر سامنے کی چیز بھی دکھائی نہیں پڑتی ۔

                          حجاج بن یوسف کے پاس سنان بن انس قتل حسین کا اقرار کیا کرتا ہے کہ یزیدی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب جان بچی ، ان بے چاروں کو خبر نہیں کہ یہ کوئی راز نہیں تھا جس کا انکشاف کیا گیا ہو ، بلکہ یہ جشن کی ایک مجلس تھی جہاں قتل حسین کا اقرار کرکے موچھوں پر تاؤ پھیرا جارہا تھا ، ورنہ اہل نظر سب کچھ بہت پہلے سے جانتے آرہے تھے ، حافظ ابو یحیی ایسا لگتا ہے کہ اس واقعہ کے الف با ہی ابھی پڑھ رہے ہیں ، اسی لیے سنان بن انس والی روایت کو ایک بڑا انکشاف سمجھنے لگے ، حالانکہ ان ظالموں کا تذکرہ ہمارے مؤرخوں نے نام بنام اپنی کتابوں میں کیا ہوا ہے ۔

جناب یہ سب کرایے کے قاتل تھے جو اپنی سپاری کے لیے حسین کے خلاف تلوار لے کر نکل آئے تھے ، اور یزید کے لیے حق غلامی ادا کر رہے تھے ، لیکن اندھوں کے سوا ساری دنیا اس ماسٹر مائنڈ یزید کو ہی اصل ذمہ دار ما‌نتی آرہی ۔

آپ کے پیر محقق ابو یحیی نورپوری کو مضبوط سند سے نہیں معلوم ہو سکا کہ عمر سعد قتل حسین میں شریک تھا ، سارے مسلم مورخین نے بالاتفاق ابن زیاد کا سپہ سالار عمر سعد کو بتایا ہے ، اور بالکل کامن سینس آپ کی رہنمائی کرتا ہے کہ حسینی طوفان کو روکنے کے لیے ابن زیاد اپنے سپہ سالار کو استعمال کرے گا ، اور کامن سینس کے عین تقاضے کے مطابق ساری تاریخی روایات یہ کہتی آرہی ہیں کہ عمر سعد یزیدی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے حسین کے قتل میں شریک ہوا ، اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عمر سعد شریک نہیں تھا ، تو اسے اس بات کو صحیح سند سے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کیا حادثہ پیش آیا تھا ؟ جس کے سبب ابن زیاد کے سپہ سالار عمر سعد کی بجائے کوئی اور کمان سنبھال رہا تھا ، اور ایسی کوئی سند انہیں قیامت کی صبح تک نہیں مل سکتی ، جس میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ عمر سعد نے یزیدی لشکر کی قیادت نہیں کی تھی ، گزشتہ سطور میں خود آپ نے دیکھا کہ حامیان یزید نے کس طرح عمر سعد کی قیادت میں یزیدی لشکر کے کربلاء میں ہونے کی شہادت دی ہے ، لہذا ناک رگڑ کر عمر سعد کے کرتوت کو تسلیم کرنا پڑے گا ، یا پھر یزیدیوں کو ان لوگوں کے وجود کا ہی انکار کرنا پڑے گا ، جو ان کے لیے نہایت درجہ ٹیڑھی کھیر ہے ۔

اس آئینۂ حق میں جھانک کر اپنے دل و دماغ اور عقیدہ کا جائزہ لیں اور ہمیشہ کے لیے حمایت یزید سے تائب ہو جائیں ، اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ذہن میں تازہ کر لیں :

*أنا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم .*


*میری جنگ ہے اس کے ساتھ جس کے ساتھ تمہاری (علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ) جنگ ہو ، اور میری صلح ہے اس کے ساتھ جس کے ساتھ تمہاری صلح ہو۔*

کس قدر سخت اور رونگٹے کھڑی کردینے والی بات ہے ، کیا آپ (عرفان خان سلطان پوری ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ پھر تو اپنے ایمان و اسلام کی خیر منائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے اہل بیت کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ رہنے کا حکم دیں اور آپ کو ان کے دشمنوں کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ رہنے میں مزہ آئے ، بات سمجھ سے بالا تر ہے ، آپ کی منطق الٹی چل رہی ہے ، کہیں شیطان کے نرغے میں نہ آگئے ہوں ، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، ایک وقت اچانک آجائے گا ، اور آپ بس ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ، اہل بیت کا کتنا ساتھ دیا ، یہ آپ سے ضرور پوچھا جائے گا ، لیکن یزید اور بنی امیہ کی کتنی حمایت کی آپ سے نہیں پوچھا جائے گا ، یہ نکتہ ضرور ذہن میں رہے ، بس یہ چند باتیں خیر خواہی کے جذبے سے لکھ دیے ہیں ، دعا ہے اللہ صحیح فیصلے کی توفیق دے ، آمین 

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

زوال تدريس