ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

بهار الیکشن پر ایک بصیرت افروز تحرير

 *بہار الیکشن*



*ہمارا سیاسی شعور اب تک بالغ نہیں ہو پایا ہے، ہم ابھی بھی صحت مند  سیاسی تجربات کرنے کے عمل میں داخل نہیں ہوے ہیں؛ ہم قومی کشمکش اور جزباتی ردد عمل کی سیاست کے پھندے میں پھنساے جا چکے ہیں، ہمارا محدود سیاسی نظریہ ملک و ملت کو اعلی قدروں پر مبنی مثالی سیاسی تحريكات سے روشناس کرانے سے قاصر ہے، اے کاش ہم ہوش کے ناخن لیتے!* 


بہار الیکشن پر ایک بصیرت افروز تحرير؛ ضرور پڑھیں


🖍️ 


*"بہار کے الیکشن کی معنویت"*


جمہوریت اور انتخاب  لازم و ملزوم ہے۔اس لئے الیکشن کی اہمیت کا ایک پہلو جمہوری نظام کا تسلسل ہے۔چنانچہ جب بھی اور جہاں بھی الیکشن ہوگا وہ جمہوری نظام کو مضبوط کرے گا اور اگر غلط طریقے سے ہواتو کمزور کرے گا۔اس پہلو سے  انتخابی عمل جمہوریت کے لئے ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے اور اس سلسلے میں کبھی بھی لاپرواہی اور غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ یہ تو جمہوریت میں  انتخابی عمل  کی  مستقل اہمیت ہوئی۔ لیکن کبھی سیاسی حالات ،ایشوز،اور مسایل نازک ہوجاتے ہیں  تب الکشنی سیاست غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔مثلا 1977میں ایمرجنسی کے بعد ہندوستان کا پارلیمانی انتخاب جمہوریت کی بقا کا مسئلہ بن کر ابھر گیا تھا۔جس کو ہندوستان کی ہر پارٹی اور باشعور ناگرک نے محسوس کیا، اور اپنا  رول ادا کیا۔

اسی طرح کبھی الیکشن ریفرنڈم بن جاتا  ہے یہ موقع قوموں  گروہوں اور خود ملک کے لئے اہم اور نازک ہوتا ہے۔ایسی حالت میں الیکشن، پانچ سال کس کی حکومت ہوگی یہی فیصلہ نہیں کرتا ، بلکہ آیندہ20,15 برس اور کبھی 40,30برس طرز حکمرانی کیسی ہوگی اور کس کی ہوگی یہ طئے کردیتا ہے۔اس وقت بہار میں جو انتخاب ہونے جارہا ہے اس کی نزاکت کو سمجھنا ضروری ہے اس میں صرف یہ فیصلہ نہیں ہوگا کہ نتیش کی حکومت ہوگی یا تجسوی کی یا پھر  جوڑتوڑ کر مہاراشٹر کرناٹک وہریانہ کی طرح  کوئی اور شکل پیدا ہوجایےگی ۔بلکہ ملک کے دستور کے دیباچے میں مذہبی رواداری ،بھائی چارگی مساوات، سوشل جسٹس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی ۔ کیونکہ اس کے بعد بںگال کی فتح آسان ہو جائے گی اور جھارکھنڈ میں بابو لا ل مرانڈی کھل کر خرید وفروخت کا کھیل گورنر کی چھتر چھایہ میں کھیلیں گے اور بالآخر  ھیمنت سورین کی حکومت گرادی جائے گی ۔لیکن اگر بہار نے فرقہ پرست ھندتوا کے رتھ کو انتخابی حکمت عملی سے روک دیا تو بنگال اور جھارکھنڈ میں بھی کیسریادال نہیں گلے گی۔میں نے 2014 کے پارلیمانی انتخاب کے بعد آسام کی اسمبلی الیکشن میں یو ڈی ایف کے ذمہ داروں کے لئے کہا تھا کہ آسام میں کانگریس سے سیاسی معاملہ کرنے میں حالات کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے تھوڑا کم پر معاملہ کرلیں لیکن انہوں نے یہی کہا کہ سیکولرزم کو بچانا صرف یو ڈی ایف کی ذمہ داری نہیں ہے اور بالاخر بی جے پی کی حکومت بن گئی۔یقینا اس میں کانگریس کی بھی غلطی تھی۔لیکن نقصان کس کا زیادہ ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ  اس کے بعدآسام کی سیاست نے کیا کروٹ لی ۔ٹھیک اسی طرح جموں و کشمیر میں مفتی محبوبہ ، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اختلاف نے بی جی پی کو پیر جمانے کا موقع دیا، یہاں تک کہ پری پول نہ سہی پوسٹ پول الاینس کے ذریعے   بھی معاملہ کرسکتے تھے لیکن  مستقل چیف منسٹری اور ہوس اقتدار نے  مفتی محبوبہ کو اتنااندھا کردیا تھا کہ نادان دوست اور دانا دشمن کا فرق بھول گئں۔یہ تو دو مثال ہے۔ورنہ 2014کے بعد جہاں جہاں ریاستی انتخابات ہوئے مسلم سیاسی لیڈروں،مسلم محلے کے بیشترمقامی دلالوں،اورمذہبی وسماجی ٹھیکیداروں نے سیاسی بلنڈر کیا ۔ اپنے اپنے سماج کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے میں کہیں دانستہ اور کہیں نادانستہ دانا دشمنوں کے آلہ کار بنے۔انہوں نے بی جے پی کے اقتدار  کا سیاسی اور تہذیبی مطلب ہی نہیں سمجھا۔آزادی کے بعد تقسیم ملک کی افراتفری میں مسلمانوں میں سیاسی تعلیم و تربیت کا نظام معطل ہوگیا۔ پالیٹکل عزائم بھی کاسہ لیسی کی نظر ہو گئے۔ چنانچہ پورے مسلم سماج میں جمہوری شعور اور اس کی نشوونما کے ادارے پنپ نہیں سکے۔ پھر مختلف سیکولر سیاسی پارٹیوں نے دو چار بڑے مذہبی اداروں ،چار پانچ خاندانوں، اور چھ سات شخصیتوں کے ذریعے چند انتخابی ٹکٹ کا سودا کیا، کچھ راجیہ سبھا کی ممبری  ھدیہ کیا بعض کو گورنری اور   بقیہ شخصیات سے دعا وسلام اور رابطہ باقی رہے اس کے لئے اوقاف مانریٹی کمیشن حج کمیٹی کی خیرات تقسیم کی جاتی رہی اور اس کے عوض قوم کا  معاملہ پورے تقدس،کمال ہوشیاری اور لیڈرانہ جشن کی ساتھ ہوتا رہا۔الا ماشاءاللہ۔کچھ مخلصین نے جہاں تہاں کوششیں کیں لیکن مسلک،مذہب ،برادری

پرانے خاندانی روابط، اورکچھ لوگوں کی پیشہ آبا سیاسی گداگری نے مخلصین کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔آج  ہندوستان کی سیاسی بساط پر جب مسلمانوں کے سب مہرے مات کھا چکے ہیں۔ اس وقت بھی سیاسی بیداری نہیں آرہی ہے اور اب  بھی الیکشن کی کیا اہمیت ونزاکت ہے اس کا اندازہ نہیں کر پارہے ہیں ۔ لھذا کب کتنا رسک لینا چاہئے۔کتنی قربانی دینی چاہئے کیاسیاسی ترجیحات قایم کرنا چاہیے ان باتوں پر کوئی عام سنجیدہ مباحثہ نہیں ہے۔بس اگر کہیں سیاسی چہل پہل ہے تو وہاں جہاں مسلم قومی حمیت اور حمایت میں ردعمل کے طورپر جواب دینے کا جذبہ   نمایاں ہے۔ میں نے اوپر کہا کہ بہار کا الیکشن گنگا جل کو بنگال کی کھا ڑی تک کسریا کردیگا۔اس کے بعد آسام کے تجربے کی روشنی میں بنگال بہار مغربی یوپی میں سی اے اے، این آر پی، اور این آر سی کا کھیل پورے آب و تاب سے کھیلا جائے گا۔اسلئے اس جنکشن پر ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئے۔یہ  بڑا اہم مسئلہ ہے۔ کیا ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ ہم قومی کشمکشِ کی زبان  کاسیاسی استعمال الکشنی میدان میں کرنے سے پرہیز کریں ۔ایشوز بھی انسانی حقوق اور سب کے ساتھ انصاف کو بنایں ۔ کیا یہ مناسب ہوگا کہ مسلمانوں کی نمایندگی ھمارا قومی وملی مسئلہ نہ بنےبلکہ جمہوریت کی کامیابی کو مسئلہ بنایا جائے  تاکہ تمام گروہوں کی متناسب نمائندگی کے ساتھ ہمارا مسئلہ بھی وابستہ ہوجائے۔ یا پھر  قومی انصاف کے نام پر اپنا حق ماںگیں اس سے قومی کشمکشِ ہو تو اس کو انگیز کریں چنانچہ بہار اسمبلی میں مسلمانوں کی نمایندگی مسلم آبادی کے تناسب میں ہونی چاہئے اس کو بھی ابھاریں ؟ کیا الیکشن میں ہمارا اصل بیانیہ یہ ہو کہ سیکولر اور ،سوشل جسٹس کی پارٹیوں نے ہمیں ٹھگا ہے اس لئے مسلمانوں کو سیاسی طور پر اعتماد صرف مسلم پارٹی  پر کرنا چاہیے اور مسلمانوں کی نمایندگی کا اصل حق  صرف مسلم پارٹی کو ہے۔لھذا ہمیں ایک متحدہ مسلم پارٹی ابھی بنا لینا چاہئے اور اگر بنانے کی سکت نہ ہو تودوسری ریاستوں سے مثلاً ایم آئی ایم کو دعوت دینا چاہیے اور اگر وہ میدان عمل میں آگئے ہوں تو ان کی سیاسی قیادت قبول کر لینا چاہئے ۔چاہے اس سیاسی پارٹی نے  مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی آبادی میں سوشل بیس بنایا ہو یا نہیں۔چوںکہ وہ مسلمانوں کی پارٹی ہے اس لئے مسلمانوں کی کثرت والی آبادی میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے کااس کو اپنے آپ حق بن گیا ہے۔بابری مسجد کی وکالت دھون ایڈوکیٹ کرسکتے ہیں پرسنل لا کی بحث کپل سیبل کرسکتے ہیں پھرسیاسی وکالت اور نمایندگی مسلمانوں کی 

اچھے ہندؤوں کیوں نہیں کرسکتے ان کو بھی کرنی چاہئے اور  ہمیں اچھےہندؤں پر اعتماد بھی کرنا چاہیے وہ بھی ہماری کامیاب وکالت اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کر سکتے ہیں۔مسلمان بھی اپنے کو تیار کریں کہ وہ ہندو آبادی کی نمایندگی کریں اور ہندؤوں کو ان مسلمانوں پر اعتماد ہو۔افسوس کانگریس نے مولانا آزاد کو ہندو اکثریت والے حلقہ انتخاب سے نہیں کھڑا کیا مولانا آزاد یہی چاہتے تھے۔بہرحال مسلمانوں کو اچھے ہندؤں پر اعتماد کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔آج بہار کے انتخاب میں ہمارا ،موقف ،بیانیہ حکمت عملی اور عملی رویہ کیا ہو،جس سے ہم فرقہ پرستی کی فضا کو  بد ل سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایسے امیدواروں کو کامیاب کرسکتے ہیں جو بہار میں فرقہ پرست قوتوں کو شکست دیں  ۔یہ دلیل صحیح نہیں ہے کہ فرقہ پرستی کو شکست دینا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے یقینا یہ سب کی ذمہ داری ہے ۔ بلکہ اگر صرف مسلمان چاہیں اور ایک اچھی تعداد وطنی بھائیوں کی نہ چاہے تو ہم فرقہ پرستی کو شکست  نہیں دے سکتے ہیں اس لئے یہ بیان سیاسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ہاں یہ سوچنا ضروری ہے کہ ھندتوا کے اقتدار میں آنے سے نقصان پورے ملک اور انسانیت کا ہوگا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سےزیادہ جانی ،معاشی سیاسی  اجتماعی اورقومی نقصان ملت اسلامیہ کا ہوگا۔اور اسی کا تقاضہ ہے کہ ہم زیادہ فکرمندی اور دانشمندی سے کام لیں۔والسلام

 

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ