ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

انسان کے بنیادی سوالات

 فریڈرش اینگلس نے کہا ہے آدمی کو سب سے پہلے تن ڈھکنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کو روٹی چاہیے اس کے بعد ہی وہ فلسفہ و سیاست کے مسائل پر غور کر سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے جس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے وہ یہ سوال ہے کہ  میری زندگی کیسے شروع ہوئی اور کہاں جا کر ختم ہوگی ،یہ انسانی فطرت کے بنیادی سوالات ہیں، آدمی ایک ایسی دنیا میں آنکھ کھولتا ہے جہاں سب کچھ ہے مگر یہی ایک چیز نہیں، سورج اسکو روشنی اور حرارت پہنچاتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے اور کیوں انسان کی خدمت میں لگا ہوا ہے،ہوا اس کو زندگی بخشتی ہے مگر انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کو پکڑ کر پوچھ سکے کہ تم کون ہو اور کیوں ایسا کر رہی ہو، وہ اپنے وجود کو دیکھتا ہے،مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے، کس لیے دنیا میں آگیا، ان سوالات کا جواب دینے  سے انسان کا ذہن قاصر ہے مگر انسان بہرحال ان کو معلوم کرنا چاہتا ہے، وہ سوالات لفظوں کی شکل میں متعین ہو کر ہر شخص کی زبان پر نہ آئیں مگر انسان کی روح کو پہچان لیتے ہیں اور اس شدت سے ابھرتے ہیں کہ آدمی کو پاگل بنا دیتے،



" انگلس "کو دنیا ایک ملحد  انسان کی حیثیت سے جانتی ہے، مگر اس کا یہ الحاد اس کے غلط ماحول سے  اس کی زندگی میں ظاہر ہوا، اس کی ابتدائی زندگی مذہبی ماحول میں گزری، مگر جب وہ بڑا ہوا ، اور نظر میں گہرائی پیدا ہوئی تو رسمی مذہب سے پریشانی پیدا ہوگئی، وہ اپنا حال  ایک دوست کے خط میں اسطرح لکھتا ہے کہ روز دعا کرتا ہوں کہ مجھ پر حقیقت آشکار ہو جائے، جب سے میرے دل کے اندرشک پیدا ہوا ہے، یہی دعا کرنا میرا مشغلہ ہے، میں تمہارے عقیدے کو قبول نہیں کر سکتا میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور میرا دل آنسؤوں سے امڈہ چلا آرہا ہے، میری آنکھیں رو رہی ہیں لیکن مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ میں راندۂ درگاہ نہیں ہوں، مجھے امید ہے کہ میں خدا تک پہنچ جاؤں گا،  یہ وہی حقیقت کی تلاش کا فطری جذبہ ہے جو نوجوان "انگلس" میں بھرا تھا، مگر وہ مروجہ مسیحی مذہب سے غیر مطمئن ہوکر  معاشی اور سیاسی فلسفہ میں گم ہوگیا، اس طلب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک مالک کا شعور پیدائشی طور پر پیوست ہے وہ اس کے لاشعور کا ایک لازمی جزو ہے،کہ خدا میرا خالق ہے اور میں اس کا بندہ ہوں، وہ اول روز سے ہی اپنے اندر یہ احساس لے کر اس دنیا میں آتا ہے کہ ایک پیدا کرنے والا ضرور ہے،اور یہ جذبہ محسوس طور پر اس کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے اس کے بغیر وہ اپنے اندر عظیم خلا محسوس کرتا ہے، اس کی روح اندر سے آمادہ کرتی ہے کہ جس آقا کو اس نے نہیں دیکھا  اس سے لپٹ جائے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کردے، خدا کی معرفت ملنا گویا اس جذبے کی صحیح عمر کو پا لینا ہے، اور  جو خدا کو نہیں پاتے ان کے جذبات کسی دوسری مصنوعی چیز کی طرف مائل ہو جاتی ہے، پر سب اپنے اندر یہ خواہش رکھنے پر مجبور ہیں کہ کوئی بھی ہو جس کے آگے وہ اپنے بہترین جذبات کو نظر کر دیں، 15 اگست 1947 کو جب ہندوستان کی سرکاری عمارتوں سے یونین جیک اتار کر ملک کا قومی جھنڈا لہرایا گیا  تو یہ دیکھ کر ملک پرستوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے،  یہ آنسو دراصل ان کے تعلق کا اظہار تھا یا  اس جذبہ کو پالینے کی خوشی تھی جس کے لیے انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کردیا تھا، اسی طرح ایک لیڈر جب قوم کے باپ کی قبر پر جاکر پھول چڑھاتا ہے اور اس کے آگے سر جھکا کر کھڑا ہوجاتا ہے تو ٹھیک اسی عمل کو دوہراتا ہے، جو ایک مذہبی آدمی اپنے معبود کے لئے رکوع اور سجدے کے نام سے کرتا ہے،  ایک ملحد جب "لینن" کے مجسمے کے پاس سے گزرتے ہوئے اپناہیٹ اتارتا ہے اور اس کے قدموں کی رفتار سست پڑ جاتی ہے تو اس وقت وہ اپنے محبوب کی خدمت میں اپنی عقیدت کے جذبات نذر کر رہا  ہوتا ہے،انسان مجبور ہے کہ کسی نہ کسی چیز کو اپنا معبود بنا ئے اور اپنے جذبات کی قربانی اس کے آگے پیش کرے۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ