ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

مذہب اور معیشت

 مذہب معاشیات کی جو تنظیم کرتا ہے اس میں ذرائع  پیداوار پر انفرادی ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ اس کا سارا ڈھانچہ بنیادی طور پر انفرادی ملکیت کے اوپر قائم ہے یہ نظام عرصے تک باقی رہا مگر صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں انفرادی ملکیت کے اصول پر زبردست تنقیدیں شروع ہوئیں، یہاں تک کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی عام فضا اس کے خلاف ہوگئی، انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول کے درمیان سو برس تک ایسی فضا رہی گویا انفرادی ملکیت ایک مجرمانہ قانون تھا جو دور وحشت میں انسانوں کے درمیان رائج ہوگیا ، اور اب جدید علمی ترقی نے اجتماعی ملکیت کا اصول دریافت کیا ہے جو معاشیات کی بہتر تنظیم کے لئے اعلی ترین اصول ہے، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار اجتماعی ملکیت کے نظام کا تجربہ شروع ہوا زمین کے ایک بڑے حصے میں اس کو نافذ کیا گیا اس کے حق میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے، بڑی بڑی امیدیں باندھی گئیں، مگر طویل تجربے سے ثابت ہوگیا کہ اجتماعی ملکیت کا نظام نہ صرف یہ کہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے اپنے قیام کے لیے تشدد پیدا کرتا ہے، نہ صرف یہ کہ وہ انسان کی ہمہ جہتی ترقی میں مانع ہے، نہ صرف یہ کہ سرمایہ داری سے بھی زیادہ ایک مرکوز اور جابرانہ نظام کا موجب ہے، بلکہ خود وہ زرعی اور صنعتی پیداوار بھی اس میں ملکیتی نظام کے مقابلے میں کم حاصل ہوتی ہے، جس کے لئے آزادی اور ہمہ جہتی ترقی کی قربانی دی گئی تھی، یہاں میں روس کی مثال دوں گا روس کی تمام زمینیں  ١٩٢٠کےقریب سرکاری ملکیت میں تبدیل کی جا چکی تھیں، اور پورے ملک میں اجتماعی نظام کے تحت کاشت کی جاتی تھی، ساری زمینیں سرکاری اور پنچائتی فارم کی صورت میں تھیں، نہ کہ نجی ملکیت کی صورت میں، البتہ انیس سو پینتیس کے فیصلے کے مطابق ہر کسان کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنے رہائشی مکان سے متصل اپنے ذاتی استعمال کے لیے ایک تہائی یا نصف ایکڑ کل اور بعض مخصوص صورتوں میں دو ایکڑ تک زمین پر قبضہ رکھ سکتا ہے، اسی طرح اسے یہ بھی حق ہے کہ اپنے مکان میں محدود تعداد میں گائے بکری بھیڑ اور مرغی وغیرہ پالے، 1961 کے اعداد و شمار کے مطابق روس میں کل زیر کاشت رقبہ 204 ملین ہیکٹرز تھا ، جس میں نجی رقبے کی مجموعی مقدار چھ ملین ہیکٹر تھی، یعنی کل زیر کاشت زمین کا صرف تین فیصدی حصہ مگر انیس سو اکسٹھ میں آلو کی پیداوار سرکاری زمینوں میں٣٠٨٠٠٠٠٠ٹن تھی، جبکہ نجی زمینوں میں آلو کی پیداوار ٥٣٥٠٠٠٠٠ٹن تھی، اس طرح نجی رقبہ  پر پیدا ہونے والے آلو کی مقدار 11ٹن فی ہیکٹر تھی، جبکہ سرکاری فورموں میں یہ مقدار صرف سات ٹن فی ہیکٹر تھی، حالانکہ سرکاری فورموں کو جدید زرعی مشین موزون زمین اور معدنی کھاد وغیرہ کی سہولت حاصل تھی، جن سے نجی زمینیں قدرتی طور پر محروم تھیں، اسی قسم کا تناسب دوسرے اجناس کی پیداوار میں بھی پایا جاتا ہے، مویشیوں کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے، چارے کی کمی اور ناقص دیکھ بھال کی وجہ سے سرکاری فارموں میں کثرت سے جانور مر جاتے تھے، چنانچہ صرف ایک ریاست میں 1922 عیسوی کے گیارہ مہینوں میں مجموعی طور پر تقریبا ایک لاکھ 70 ہزار مویشی مر گئے، جبکہ ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود نجی طور پر پالے ہوئے مویشیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، 


بالا خیر اس اجتماعی ملکیت کا آخری انجام یہ ہے کہ روس جو زار کے زمانے میں جب کہ وہاں نجی ملکیت کا نظام رائج تھا، اناج کے معاملے میں دنیا کے چند بڑے برآمدی ملکوں میں سے تھا، اس نے 1963ءمیں کناڈا ، آسٹریلیا اور امریکہ سے 15 ملین ٹن گیہوں خریدا ،اس تجربے سے معلوم ہوا کہ مذہب کا قانون جس سے نکلا ہے وہ انسانی فطرت کو زیادہ جاننے والا ہے اور اس کے مسائل کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کچھ جو تمدن کی تعمیر کے لیے ہمیں درکار ہے اس کا واحد اور حقیقی جواب صرف مذہب کے پاس ہے ، مذہب ہمیں حقیقی قانون ساز کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ قانون کی موزوں ترین اساس فراہم کرتا ہے زندگی کے ہر معاملے میں وہ صحیح ترین بنیاد دیتا ہے، جس کی روشنی میں ہم زندگی کا مکمل نقشہ بنا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ