ندويت اور جمهور امت

 *ندویت اور جمہور امت*                                                                                                                            (ابنائے ندوہ کی خدمت میں)                                                 محمد نصر الله  ندوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                               1857کے خونی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ زارونزار تھی،آزمائشوں کا ایک طویل سلسلہ تھا،بالخصوص علماء کرام انگریزوں کے نشانہ پر تھے،جو اپنی کشتی جلاکر ملت کو ساحل تک پہونچانے کیلئے پرعزم تھے،ان کی کوششوں کا نتیجہ  کبھی دارالعلوم دیوبند کی شکل میں ظاہر ہوا، تو کبھی علیگڈھ کی شکل میں ،تو کبھی تحریک ندوہ کی شکل میں ،آخر الذکر تحریک کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے: ملت کی صفوں میں اتحاد قائم کرنا اور ملک کو ایک نئے نصاب تعلیم سے متعارف کرانا ،جس میں فکری وسعت ہو،مسلکی رواداری ہو،عصر حاضر کے تقاضوں کی بھر پور رعایت ہو،جس کے اندر دین ودنیا کی جامعیت ہو،اعتدال اور توازن ہو،عصر حاضر سے آگہی اور واقفیت ہو،قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم ہو،اس نصاب سے لاکھوں فرزندان ملت نے کسب فیض

The tragedy of Islamic world

 *اسلامی دنیا کا المیہ*


مختلف سالوں کا جو سروے محولہ بالا فہرست میں دیا گیا ہے ، وہ قابل غور ہے اور ایک سائنٹفک حقیقت بھی ، اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا ، جس دن پہلا رمضان ہو ، اسی دن کو لازما عید الاضحی واقع ہوتی ہے ، یہ ایک فلکیاتی حقیقت ہے ۔

ایک دوسری حقیقت بھی ہے جس کی طرف محولہ بالا فہرست میں اشارہ نہیں کیا گیا ہے ، میں اشارہ کیے دیتا ہوں ، وہ یہ کہ جس دن عید ہوتی ہے ، اسی دن لازما عاشوراء کا دن بھی ہوتا ہے ، یعنی جس دن کو شوال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے ، اسی دن کو محرم الحرام کی دسویں تاریخ بھی ہوتی ہے ، یہ ایک حقیقت ہے اور صدیوں کا انسانی تجربہ بھی ، اس میں کوئی تخلف نہیں ہوگا ، الا یہ کہ کسی جھوٹی شہادت کی بنیاد پر تاریخ ادھر سے ادھر کر دی جائے ۔

              یہ ہمارے دور کا المیہ ہے کہ علماء اسلام کو قمری تاریخ کے لیے فلکیاتی تحقیقات سے فائدہ اٹھانے کی اب تک توفیق نہیں ہو سکی ، وہ الفاظ کے پیچوں میں اب تک الجھے ہوئے ہیں ، اور رؤیت بصر کے لزوم پر بحث کر رہے ہیں ، ان کا ذہن اس حوالے سے اس رخ پر نہیں جاتا کہ جب فلکیاتی سائنس نے چاند کی رفتار و حساب کو کاؤنٹ کر لیا ہے ، اور انتیس و تیس کے قمری حسابات کو بالکل یقینی بنیادوں پر کاؤنٹ کر کے ایک حسابی کلینڈر تیار کرکے رکھ دیا ہے ، ایسے میں آج چاند کو آنکھ سے دیکھنے میں کیا خاص حکمت ثابت کی جا سکتی ہے ؟ 

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس تاریخ کو چاند دیکھنے کا حکم کیوں ارشاد نہیں فرمایا ؟ وجہ معلوم ہے کہ تیس سے آگے قمری مہینے کے نہ جانے کا یقین اس وقت کے لوگوں کو بھی تھا ، اس لیے صدیوں کے انسانی تجربے کا اعتبار کرتے ہوئے تیس کے بعد بغیر چاند دیکھے ہوئے بھی دوسرے مہینے کے آغاز کو یقینی مانا گیا ، آج یہی صورت حال انتیس کی تاریخ کے تعلق سے جدید فلکیاتی سائنس نے پیدا کردی ہے ، کیا یہاں پر آج نبوی فقاہت و فراست کا فقدان شدت کے ساتھ محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے ؟ 

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آج مسلم علمی دنیا میں زبردست قسم کے تعارض و تضاد نے سامنے آکر کنفیوژن کی فضا عام کردی ہے ، وہ یہ کہ شمسی کلینڈر کے تعلق سے فقہاء اسلام خاصے جدت پسند اور حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں ، نماز کے اوقات اور سحر و افطار کے اوقات کی تعیین کے لیے انہوں نے ذرا بھی آنکھ سے سورج دیکھنے کے لزوم کی ضرورت محسوس نہیں کی ، رمضان میں سحری کے لیے صبح صادق نمودار ہونے کا منظر آنکھوں سے دیکھنے کی انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، افطار کے لیے غروب آفتاب کا منظر آنکھوں سے دیکھنا ضروری محسوس نہیں ہوتا ، احتیاط کے سارے تانے بانے رؤیت ہلال پر آکر ٹوٹ جاتے ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

إذا رأيتم الهلال فصوموا و إذا رأيتموه فأفطروا ٠٠٠٠٠٠٠٠، (مسلم ، رقم ١٠٨٠ ) ۔

یعنی جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو ، اور جب اسے دیکھ لو تو روزہ افطار کر لو ۔

              غور کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پر چاند دیکھنے کا لزوم ہے ، یا چاند دیکھ لینے پر روزہ رکھنے کا لزوم ہے ؟ ظاہر ہے چاند نظر آنے کی صورت میں روزہ رکھنے کا لزوم ہے ، یعنی اگر چاند نظر آگیا تو لازما روزہ رکھو ، لیکن کیا یہاں پر یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ لازمی طور پر انتیس کا چاند دیکھ بھی لو ، قطعا یہ مفہوم نہیں نکلتا ، لیکن اگر دیکھ لیا تو ضرور روزہ رکھو ۔

             جو لوگ رؤیت کو لازمی قرار دیتے ہیں ، ان کے پاس لزوم کی کوئی دلیل نہیں ، انہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آنکھ سے چاند دیکھنے کے علاوہ بھی کوئی دوسرا آپشن موجود تھا ، تاہم آپ نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا اور صرف رؤیت پر اکتفاء فرمایا ، اگر وہ ایسا ثابت نہیں کر پاتے ہیں تو پھر رؤیت کے لزوم کی بحث بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ، پھر بھی یہ اصرار ، چہ معنی دارد ؟

               ابن عمر کی اس روایت میں تو جملہ بالکل سادہ اور غیر موکد ہے ، جب کہ ایک دوسری روایت میں جو عقبہ بن عامر سے مروی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تاکید در تاکید کے ساتھ یہ ارشاد فرمایا ہے :

٠٠٠٠ألا إن القوة الرمي ، ألا إن القوة الرمي ، ألا إن القوة الرمي ،

            یعنی خبر دار ! قوت صرف تیر اندازی کا نام ہے ، قوت صرف تیر اندازی کا نام ہے ، قوت صرف تیر اندازی کا نام ہے۔

              تو کیا آج ہمارے مفتیان کرام جدید سائنسی اور نیو کلیر اسلحوں کے خلاف فتوے صادر فرمائیں گے ؟ افسوس کہ نہیں ! کیونکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان کے فتوے واپس انہیں کی طرف اچھال دیے جائیں گے ، اور اس پر کوئی کان تک نہ دھرے گا ، لیکن مسلم دنیا میں ابھی رمضان و عیدین اور حج کے ایام کے آغاز و اختتام کے مسائل میں انہیں پر انحصار کیا جا رہا ہے ، اس لیے اس جمود کا کوئی بظاہر انہیں نقصان نہیں سمجھ آ رہا ، لیکن خبر دار و ہوشیار کہ آوازیں اب اس کے خلاف بھی اٹھنے لگی ہیں ، پاکستان کے وزیر اوقاف و دینی امور نے رؤیت ہلال کے مسئلہ پر سال گزشتہ رمضان ١٤٤٠ھ میں صاف طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ رؤیت ہلال کا مسئلہ ایک فلکیاتی مسئلہ ہے اور آج کے علماء کو اس میں کچھ بصیرت نہیں ، لہذا اس سلسلہ میں ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ۔

                 اب ہمارے مفتیان کرام بسرعت تمام ہوش کے ناخن لیں ، ورنہ زمانے کی رفتار سے پیچھے رہ جانے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے ، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے فتوے کے علی الرغم زمانہ کسی اور رخ پر چل پڑے ، اور اسے آپ کے فتوے کی کچھ ضرورت محسوس نہ ہو ۔

              اللہ کرے کچھ لوگ اس پہلو پر خصوصیت کے ساتھ غور کر سکیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

رجب طیب اردوغان کی حماقتیں

سید قطب شہید،سوانح حیات

قتل حسین اور یزید کی بے گناہی، ایک تحقیقی جائزہ